class="post-template-default single single-post postid-8125 single-format-standard kp-single-standard elementor-default elementor-kit-7">

اقوام متحدہ سلامتی کونسل: غزہ جنگ بندی کی قرارداد امریکا نے ویٹو کردی

اقوام متحدہ سلامتی کونسل میں غزہ جنگ بندی کی قرارداد امریکا نے ویٹو کردی، قرارداد الجزائر، گیانا اور سلوانیہ سمیت سلامتی کونسل کے 10 غیر مستقل ارکان نے پیش کی تھی۔

عرب میڈیا کی رپورٹ کے مطابق امریکا پہلے بھی 3 بار غزہ جنگ بندی کی قراردادوں کو ویٹو کر چکا ہے۔رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ غزہ میں غیر مشروط جنگ بندی کے حق میں 14 اور مخالفت میں ایک ووٹ آیا۔سلامتی کونسل کے 10 منتخب ممالک نے غزہ جنگ بندی کی قرارداد پیش کی تھی، غزہ جنگ شروع ہونے کے بعد سے سلامتی کونسل میں جنگ بندی کی قرارداد 11 بار پیش کی جاچکی ہے۔

اسرائیلی فوج کا شمالی غزہ میں آپریشن جاری

اسرائیلی فوج کا شمالی غزہ میں آپریشن جاری ہے، جبالیہ میں بمباری سے 16 فلسطینی شہید ہوگئے۔اسرائیل فوج نے کمال عدوان اسپتال کا محاصرہ کررکھا ہے، کسی کو آنے جانے کی اجازت نہیں، دواؤں، خوراک اور ایمبولنسوں کو بھی روک دیا گیا۔اسرائیل نے شمالی غزہ کیلئے اقوام متحدہ کے 31 امدادی مشنز کو رسائی دینے سے بھی انکار کردیا ہے۔

اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں غزہ جنگ بندی سے متعلق قرارداد امریکا کی جانب سے ویٹو کیے جانے پر حماس کا ردِعمل سامنے آگیا۔

فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس نے جنگ بندی کے مطالبے کی قرارداد ویٹو ہونے کے بعد امریکا پر غزہ میں اسرائیل کی ’’نسل کشی کی جنگ‘‘ میں ’’براہ راست ذمہ دار‘‘ قرار دے دیا۔ حماس کا کہنا ہے کہ غزہ پر اسرائیلی جارحیت میں میں امریکا ’’براہ راست ساتھی‘‘ ہے۔مزاحمتی تنظیم نے ایک بیان میں کہا، ’’ایک بار پھر امریکا یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ ہمارے لوگوں کے خلاف جارحیت میں براہ راست شراکت دار ہے۔‘‘بیان میں مزید کہا گیا کہ یہ (امریکا کا) مجرمانہ فعل ہے، یہ ہمارے بچوں اور عورتوں کو شہید کر رہا ہے اور غزہ میں شہریوں کی زندگی کو تباہ کر رہا ہے، اور یہ کہ یہ قابض (اسرائیل) کی طرح براہ راست نسل کشی کی جنگ کا ذمہ دار ہے۔ دوسری جانب فلسطین نے بھی جنگ بندی کی تازہ ترین قرارداد منظور کرنے میں ناکامی پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ اقوام متحدہ میں فلسطینی مشن کے نائب سفیر ماجد بامیہ کا کہنا ہے کہ غزہ پر اسرائیل کے جاری مہلک حملے کا وہاں پر قید اسرائیلی اسیران سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

About the author /


Related Articles

Post your comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Newsletter