کھیرا اور پیاز کاٹنے کا شرعی طریقہ بتانے والے اور جنت کے حوروں کی خوبصورتی بتانے والے علماء متوجہ ہوں۔
کمال اتاترک نے اپنے سپاہیوں کو حکم دیا کہ ملک کے بڑے ملاؤں کو میرے پاس لے آئیں، جب ملاں آئے تو اس نے ان سے کہا:
کسان حکومت کے لیے گندم، چاول وغیرہ اگاتے ہیں، مزدور بڑی اور اونچی بلنڈنگ بناتے ہیں اور دیگر چیزیں بناتے ہیں-
آپ اپنے لوگوں اور اپنے ملک و قوم کو فائدہ پہنچانے کے لیے کیا کار آمد کام کرتے ہیں؟
ملاؤں نے کہا کہ ہم آپ کے اور اپنے لوگوں کے لیے دعائیں کرتے ہیں۔
کمال اتاترک نے پھر انہیں سمندری سفر کی دعوت دی اور ایک ملاح کو حکم دیا کہ وہ جہاز کو بیچ سمندر میں چھید کر دے۔
سمندر کے بیچوں بیچ ملاؤں نے جب جہاز میں سوراخ دیکھا اور جہاز میں پانی بھرتا دیکھا تو وہ سب چیخنے لگے۔
کشتی کے نگہبانوں نے ملاؤں سے کہا کہ وہ دعا کریں تاکہ جہاز میں وہ سوراخ بند ہو جائے، ملاؤں نے غصے میں آکر بلند آواز سے جواب دیا کہ کبھی دعا سے بھی سوراخ بند ہوا؟
تو ملاحوں نے کہا اس پانی کو ہمیں جہاز سے نکالنا ہو گا ورنہ ہم سب مارے جائیں گے۔
کشتی کے ملاحوں نے کچھ بالٹیاں ملاؤں کے ہاتھوں میں تھما دیں اور کہا کہ وہ لگاتار پانی نکالتے رہیں۔ ملاوں نے بغیر رکے جہاز سے پانی نکالنا شروع کر دیا۔
ملاحوں نے جہاز کو واپس موڑا اور تیز رفتاری سے ساحل پر پہنچا دیا۔
سب ملاں تھکن سے ایک کونے میں گر گئے۔
کمال اتاترک ان سے پھر ملنے آیا ان کی طرف متوجہ ہو کر کہا:
اب آپ لوگ سمجھ گئے ہونگے کہ ہمیں آپ کی دعاؤں کی ضرورت نہیں، آپ کو ملک و قوم کے لیے کچھ کام بھی کرنا ہوگا تاکہ آپ کے فائدے عوام اور حکومت تک پہنچیں، کام کے سوا کوئی ملک دعاؤں سے ترقی نہیں کرتا اور آپ ملاؤں نے ہمیشہ مذہب کو اپنے ذاتی فائدوں کے لیے استعمال کیا ہے۔
یہ ترک ادب سے ماخوذ ایک قصہ ہے جو میری نظر سے کل گزرا تو سوچا کہ کیوں نہ اسکو آپ سب کے ساتھ شئیر کروں ۔ یہ قصہ کتنا حقیقی ہے اس بات کو تو چھوڑیں ، مگر ہم لوگ ارد گرد نظر دوڑائیں تو ہمیں ایسے کردار روزانہ کی بنیاد پہ نظر آتے ہیں۔ دعا کا فلسفہ اور رنگ میں ہے، یعنی پہلے تدبیر اور پھر توکل اور دعا۔ مگر مسلہ یہ ہے کہ عوام کل انعام کو کسی بات کو سمجھنے کا موقع ہی نہیں دیا جاتا۔ کیونکہ اس سے کچھ کا کاروبار وابستہ ہے۔
Post your comments