class="wp-singular post-template-default single single-post postid-16383 single-format-standard wp-theme-resolution eio-default kp-single-standard elementor-default elementor-kit-7">

ایک فرد کے پی میں دہشتگردی لایا، عوام کو ایسے شخص پر نہیں چھوڑ سکتے، ڈی جی آئی ایس پی آر

ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا ہے کہ ریاست اور عوام کو ایسے شخص کے فیصلے اور خواہش پر نہیں چھوڑ سکتے جو کے پی میں دہشتگردی واپس لانے کا اکیلا ذمے دار ہو۔

پشاور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر نے خوارجیوں کے سہولت کاروں سے آہنی ہاتھ سے نمٹنے کا اعلان کیا۔انہوں نے کہا کہ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ اس کی سیاست ریاست سے بڑی ہے تو یہ ہمیں قبول نہیں، آپ کہہ رہے ہیں ایسی قیادت لائی جارہی ہے جو ریاست کے خلاف ہے ایسا نہیں ہوسکتا ہے، دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کےلیے زمین تنگ کردی جائے گی۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ اگر کوئی فرد واحد سمجھتا ہے کہ اس کی ذات پاکستان سے بڑی ہے تو یہ ہمیں قبول نہیں، ہمارے لیے تمام سیاسی جماعتیں اور رہنما قابل احترام ہیں۔انہوں نے کہا کہ کیا ان کے ساتھ بات کریں جوبھارت کے ساتھ دن رات بیٹھ کر پلاننگ کرتے ہیں، کس سے بات چیت کریں، خارجی نور علی محسود اور اس کے جتھے سے بات چیت کرلیں؟ اس مجرمانہ بیانیہ کی قیمت فوج، پولیس، بچے اور بچیاں ادا کر رہے ہیں، کون ہے جو کہتا ہے کہ پاکستان کی سیکیورٹی کی گارنٹی کابل دے گا، یہ کہتے ہیں کہ بچوں کے سر کاٹ کر فٹ بال کھیلنے والوں سے بات چیت کریں۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ لوگوں کو کنفیوژ کیا جارہا ہے کہ دہشت گردی کے مسئلے کا حل آپریشن کرنے میں نہیں ہے، اس وقت وہ ریاست کے ذمہ دار تھے آج وہ ریاست کے ذمہ دار نہیں ہیں، وہ آج بھی یہ ہی کہہ رہے ہیں، افغان مہاجرین کی واپسی کے معاملے کو بھی سیاسی رنگ دیا گیا۔انہوں نے کہا کہ دوحہ معاہدے میں کہا گیا تھا کہ افغان سر زمین دہشتگردوں کو استعمال کرنے نہیں دی جائے گی، امریکی اسلحے کا دہشتگردوں کے ہاتھ لگنا بھی دہشتگردی کی ایک وجہ ہے، خیبر پختونخوا میں ہلاک دہشتگردوں سے امریکی ہتھیار برآمد ہوئے، منصوبے کے تحت دہشتگردوں اور ان کے سہولت کاروں کو جگہ دی گئی، یہ فیصلہ ہوا تھا کہ دہشتگردوں اور جرائم پیشہ افراد کے گٹھ جوڑ کو ختم کرنا ہے۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ خیبر پختونخوا کی عدالتوں سے دہشتگردوں کو سزائیں کیوں نہیں ملیں؟ خیبر پختونخوا میں محکمہ انسداد دہشتگردی کی استعداد کار میں اضافے کیلئے بہت سے اقدامات درکار تھے۔

افواج پاکستان کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے پاک فوج کے خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کے خلاف کیے گئے حالیہ آپریشنز سے متعلق تفصیلی گفتگو کی۔

پشاور میں کی گئی پریس کانفرنس کے دوران احمد شریف چوہدری نے بطور ثبوت تصویریں اور ویڈیو ڈاکیومنٹس کا بھی استعمال کیا۔انہوں نے کہا کہ کون کہتا ہے خوارجیوں اور دہشت گردوں سے بات کرنی چاہیے، گورننس گیپ کو خیبر پختونخوا کے بہادر سپوت اپنے خون سے پورا کر رہے ہیں۔پریس کانفرنس کے دوران ایک صحافی نے افغانستان میں حملہ کرنے اور مفتی نورولی محسود کے مارے جانے سے متعلق پاک فوج کے ترجمان سے سوال کیا۔سوال کے جواب میں لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ پاکستان میں دہشت گردی کے لیے افغانستان کو بیس کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، افغانستان سے پاکستان میں دہشت گردی کرنے کے ثبوت اور شواہد موجود ہیں، پاکستان کے عوام کی جان و مال کی حفاظت کرنے کے لیے جو ضروری اقدامات کیے جانے چاہیئیں وہ کیے اور کیے جاتے رہیں گے۔انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان ہمارا برادر اسلامی ملک ہے اور ہمارا ان سے صرف ایک مطالبہ ہے کہ افغانستان کو دہشتگردوں کی آماجگاہ نہ بننے دیں۔ان کا کہنا تھا کہ ہمارے وزراء بھی وہاں گئے اور انہیں بتایا کہ دہشت گردوں کے سہولتکار وہاں موجود ہیں۔لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ پاکستان کے عوام کی جان و مال کی حفاظت کے لیے جو ضروری اقدامات کیے جانے چاہئیں وہ کر رہے ہیں اور آئندہ بھی کیے جائیں گے، اس حوالے سے کسی کو کوئی شک نہیں ہونا چاہیے۔

پاک فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا ہے کہ سابق ڈی جی آئی ایس آئی کا ٹرائل ہو رہا ہے، ان کا کورٹ مارشل ہورہا ہے۔

پشاور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ فوج میں خود احتسابی کا عمل الزامات پر نہیں ہوتا بلکہ حقائق پر ہوتا ہے۔انہوں نے کہا کہ فوج کا ریاست کے ساتھ سرکاری تعلق ہوتا ہے، ذاتی یا سیاسی نہیں، اس تعلق کو کوئی ذاتی بناتا ہے تو یہ غلط ہے، فیصلے ریاست کرتی ہے ہم ان معاملات میں اپنا ان پٹ اور رائے دیتے ہیں، ہم کسی کی سیاست کو لے کر نہیں چلتے۔ترجمان پاک فوج نے کہا کہ سابق ڈی جی آئی ایس آئی کا کورٹ مارشل ٹرائل ہو رہا ہے، فوج میں خود احتسابی کا ایک نظام ہے،  جس پر الزام لگتا ہے اسے دفاع کے لیے پورا موقع دیا جاتا ہے، کسی تاخیر سے کوئی پریشانی نہیں ہے۔

پاک فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہاہے کہ بدقسمتی سے خیبرپختونخوا میں سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو اسپیس دی گئی ‘ا

فغان مہاجرین کی واپسی پر سیاست کی جاتی ہے ‘کسی فرد واحد کو یہ اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ اپنی ذات اور اپنے مفاد کیلئے پاکستان اور خیبرپختونخوا کے عوام کے جان‘ مال اور عزت آبرو کا سودا کرے‘خارجی دہشت گرد اور ان کے سہولت کار چاہے وہ کوئی بھی ہو اور کسی بھی عہدے پر ہو، اس کے لیے زمین تنگ کردی جائے گی‘اب اسٹیٹس کو نہیں چلے گا‘ایسا نہیں ہوسکتا کہ خیبر پختونخوا میں ایک ایسی قیادت لائی جائے جو ریاست کے خلاف ہو کیونکہ اسٹیبلشمنٹ بھی ریاست کا ایک ادارہ ہے‘پاکستان کی فوج اور اس کے اداروں کو کسی سیاسی شعبدہ بازی سے پریشان نہیں کیا جاسکتا ‘اگر ہر مسئلے کا حل بات چیت میں ہوتا تو کوئی غزوہ ہوتی‘ نہ جنگیں ہوتیں اور نہ مہمات ہوتیں‘پاکستان کے عوام نو مئی کے مقدمات کے سب سے بڑے ضامن ہیں‘ریاست اس کی ضامن ہے‘ نو مئی میں ملوث لوگ اپنے کیفر کردار تک پہنچ رہے ہیں‘دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رہے گی‘ شدت پسندوں سے کوئی بات چیت نہیں کی جائے گی ‘بھارت افغانستان کو پاکستان میں دہشت گردی کے اڈے کے طورپر استعمال کررہاہے ‘تمام سیاستدان قابل احترام ہیں لیکن کسی کی سیاست ریاست سے اوپر نہیں ہے‘اگر کوئی پارٹی یا شخص یہ سمجھتا ہے اس کی سیاست ریاست سے بڑی ہے تو پھر ہمیں یہ قبول نہیں‘سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید کا کورٹ مارشل جاری ہے‘اس میں تاخیر پر کوئی پریشانی نہیں ‘سندھ اور پنجاب میں گورننس قائم ہونے کی وجہ سے دہشت گردی نہیں‘ خیبر پختونخوا میں جو دہشت گردی اور بدامنی ہے اس کے پیچھے سیاسی اور مجرمانہ گٹھ جوڑ ہے‘یہاںگورننس نام کی چیز نہیں‘فتنہ الخوارج کے سہولت کار خارجیوں کو ریاست کے حوالے کر یں یا نتیجے کے لئے تیار رہیں ‘عوام کے جان و مال کی حفاظت کے لیے ضروری اقدامات جاری رہیں گے‘دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنا ہے تونیشنل ایکشن پلان کے 14 نکات پر عمل کرنا ہوگا ۔ جمعہ کو کور ہیڈ کوارٹرز پشاور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ترجمان پاک فوج لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری کا کہنا تھاکہ ہم ایک ریاستی ادارے کے طور پر کہتے ہیں کہ ہمیں اپنی سیاست کے لیے استعمال نہ کریں‘ ہم ریاست اور عوام کے لیے جان دیتے ہیں ہم کسی کی سیاست کی جنگ نہیں لڑتے۔فوجی ترجمان کا کہناتھاکہ جو شخص یا گروہ اپنی مجبوری یا کسی فائدے کی وجہ سے خارجیوں کی سہولت کاری کررہا ہے اس کے پاس 3 راستے ہیں۔ اول یہ کہ وہ خود ان خارجیوں کو ریاست کے حوالے کردے یا پھر وہ دہشت گردی کیخلاف کارروائیوں میں ریاست کے اداروں کے ساتھ مل کر اس ناسور کو اپنے انجام تک پہنچائے ‘ تیسرا راستہ بتاتے ہوئے انہوں نے متنبہ کیا کہ اگر یہ دونوں کام نہیں کرنے تو پھر خارجیوں کے سہولت کار ہوتے ہوئے ریاست پاکستان کے بھرپور ایکشن کے لیے تیار ہوجائیں۔انہوں نے مزیدکہاکہ سانحہ آرمی پبلک اسکول کے بعد اداروں نے دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنا شروع کیا اور ایک پر امن خیبرپختونخوا کے خواب کی تکمیل کے قریب پہنچ گئےمگر بدقسمتی سے خیبرپختونخوا میں سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو اسپیس دی گئی، یہاں گورننس اور عوامی فلاح و بہبود کو جان بوجھ کر کمزور کیا گیا، جس کا خمیازہ آج تک خیبر پختونخوا کے بہادر اور غیور عوام اپنے خون اور اپنی قربانیوں کے ذریعے بھگت رہے ہیں۔ انہوں نے دہشت گردی ختم نہ ہونے کی 5 بنیادی وجوہات بھی بیان کیں جن میں نیشنل ایکشن پلان پر عمل نہ کرنا،دہشت گردی کے معاملے پر سیاست کرنا اور قوم کو اس سیاست میں الجھانا،بھارت کا افغانستان کو دہشت گردی کے بیس کیمپ کے طور پر استعمال کرنا،افغانستان میں دہشت گردوں کو جدید ہتھیاروں اور پناہ گاہوں کی دستیابی اور مقامی اور سیاسی پشت پناہی کا حامل دہشت گردوں اور جرائم پیشہ عناصر کا گٹھ جوڑ شامل ہے ۔دہشت گردوں اور جرائم پیشہ عناصر کے گٹھ جوڑکو مکمل مقامی اور سیاسی پشت پناہی حاصل ہے۔امریکاکے پاس تمام تر وسائل ہونے کے باوجود وہاں غیر قانونی تارکین وطن کا مسئلہ ہےمگر وہاں کوئی نہیں کہتا کہ اسمگلنگ کے پیچھے وردی ہے۔ترجمان پاک فوج نے سوال کیا کہ کیا آپ کو یہ آواز نہیں آتی کہ دہشت گردوں سے مذاکرات کرلیے جائیں، کیا ہم اس نیشنل ایکشن پلان پر عمل کررہے ہیں؟ کیا ہر مسئلے کا حل بات چیت ہے ؟ اگر مسئلے کا حل بات چیت میں ہوتا تو بدر کے میدان کو یاد کریں کہ سرورکونین ﷺنے اس دن کیوں بات چیت نہیں کرلی؟ لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہاکہ آپ کے عمائدین نے فیصلہ کیا تھا کہ ہم بیانیہ بنائیں گے مگر گمراہ کن بیانیہ بنایا جاتا ہے۔جب قانون نافذ کرنے والے ادارے ان ناسوروں کے خلاف کارروائی کرتے ہیں، تو ان عناصر کی پشت پناہی کے لیے مختلف سیاسی اور مقامی سطح سے آوازیں آتی ہیں فیصلہ تو آپ نے کیا تھا کہ اس کو ختم کیے بغیر دہشت گردی ختم نہیں ہوسکتی۔

About the author /


Related Articles

Post your comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Newsletter