نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ فلسطینی ریاست کو اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت دی جائے۔
اقوام متحدہ میں اسرائیل اور فلسطین کے لیے دو ریاستی حل سے متعلق کانفرنس سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ غزہ میں مستقل جنگ بندی، خوراک کی فراہمی، جنگی جرائم پر قرار واقعی سزا اور انسانیت کےخلاف جرائم کا سلسلہ بند کرایا جائے۔انہوں نے کہا کہ مسئلہ فلسطین 75 سال سے زائد عرصے سے حل طلب ہے، فلسطین کا مسئلہ حل نہ ہونا صرف سیاسی ناکامی نہیں، اس کی اور بھی وجوہات ہیں۔انسانی جان کا قتل بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔اپنے خطاب میں وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کہا کہ پاکستان فلسطین کے حق خودارادیت کی حمایت جاری رکھےگا۔اسحاق ڈار نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے فرانس کے فیصلے کا خیرمقدم اور کانفرنس کی میزبانی پر سعودی عرب اور فرانس کو خراج تحسین پیش کیا۔قبل ازیں عالمی کانفرنس سے خطاب میں سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے فوری جنگ بندی پر زور دیتے ہوئے کہا کہ انسانی بحران دہشت ناک حد کو چھورہا ہے۔
غزہ میں اسرائیلی مظالم پر 2 اسرائیلی تنظیموں نے کھل کر اسرائیل پر تنقید کی۔
غیرملکی میڈیا کے مطابق اسرائیل میں انسانی حقوق کی 2 تنظیموں نے پہلی بار کھل کر اسرائیل کو غزہ میں نسل کشی کا مرتکب قرار دے دیا۔اسرائیلی تنظیم بی تسلیم اور فزیشنز فارہیومن رائٹس اسرائیل نے اپنی رپورٹس میں کہا کہ اسرائیل نے غزہ کے صحت کے نظام کو منظم طریقے سے تباہ کیا۔اسرائیلی تنظیموں کی رپورٹس میں انکشاف کیا گیا کہ اسرائیلی فوج نے 36 میں سے 33 اسپتالوں اور کلینکس پر بمباری کی، ایک ہزار 8 زائد طبی عملے کو قتل یا گرفتار کیا، اسرائیل نے غزہ میں ایندھن اور پانی کی سپلائی بند کی۔تنظیموں نے کہا کہ یہ حادثاتی نقصان نہیں ہے بلکہ جان بوجھ کر زندگی کے حالات کو ناقابل برداشت بنانے کی پالیسی کا حصہ ہے۔
اسرائیلی مظالم کے خلاف آواز اٹھانے والی تظیموں نے طبی امداد کی فراہمی اور طبی عملے کے تحفظ کے اقدامات کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
ر افح میں کیمپوں کے اسرائیلی منصوبے پر سابق وزرائے اعظم نے شدید تنقیدکی ہے۔ منصوبے کے مطابق ابتدا میں 6 لاکھ، بعد ازاں پوری غزہ کی آبادی کو وہاں منتقل کیا جائے گا۔ اقوامِ متحدہ سمیت انسانی حقوق کے ماہرین نے بھی اسے ممکنہ نسلی صفائی اوردوسری نکبہ قرار دیا ۔اسرائیل کے سابق وزرائے اعظم یائیر لاپڈ اور ایہود اولمرٹ نے وزیراعظم نیتن یاہو کے اس منصوبے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے جس کے تحت جنوبی غزہ کے شہر رفح میں ایک “انسانی ہمدردی کا شہر” قائم کیا جا رہا ہے۔ ان رہنماؤں نے اسے فلسطینیوں کو زبردستی محدود کرکے ارتکاز کیمپ میں تبدیل کرنے کی کوشش قرار دیا ہے۔ منصوبے کے مطابق ابتدا میں 6 لاکھ جبکہ بعد ازاں پوری غزہ کی آبادی کو وہاں منتقل کیا جائے گا۔ اقوامِ متحدہ سمیت انسانی حقوق کے ماہرین نے بھی اسے ممکنہ “نسلی صفائی” اور “دوسری نکبہ” قرار دیا ہے۔ امریکی و اسرائیلی حمایت یافتہ تنظیم GHF ان علاقوں میں امداد تقسیم کر رہی ہے، لیکن ان کے مراکز پر اسرائیلی فائرنگ سے 800 سے زائد فلسطینی مارے جا چکے ہیں، جس پر ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اسرائیل دانستہ طور پر فلسطینیوں کو یا تو ہجرت یا موت کے انتخاب پر مجبور کر رہا ہے۔
Post your comments