امریکی صدر ٹرمپ کے غزہ سے فلسطینیوں کی بے دخلی منصوبے کے خلاف حماس نے دنیا بھر میں فلسطین کے حامیوں کو ہتھیار اٹھانے کی کال دے دی۔
حماس رہنما سامی ابو زہری نے ایک بیان میں کہا کہ قتل عام اور بھوک کے مذموم منصوبے کے خلاف دنیا میں جو کوئی بھی ہتھیار اُٹھا سکتا ہو، اسے عملی اقدام کرنا چاہیے۔انہوں نے مزید کہا کہ دھماکا خیز مواد، گولی، چاقو یا پتھر کچھ بھی نہ چھوڑیں، ہر کوئی اپنی خاموشی توڑ دے۔واضح رہے کہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے گذشتہ روز ٹرمپ کے غزہ منصوبے پر عمل پیرا ہونے کا بیان دیا تھا، صدر ٹرمپ نے غزہ کے فلسطینیوں کو پڑوسی عرب ممالک میں بسانے کا منصوبہ پیش کیا ہے۔
ترجمان امریکی محکمہ خارجہ ٹیمی بروس نے کہا ہے کہ غزہ کی صورتحال کی ذمے دار حماس ہے۔
ٹیمی بروس نے ایک پریس بریفنگ میں کہا کہ ٹرمپ انتظامیہ تمام فیصلے امریکی عوام کی امنگوں کے مطابق کررہی ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم محفوظ ہیں، احترام کے ساتھ اپنی اقدار کو نافذ کرتے ہیں۔ترجمان امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا تھا کہ ایران کے پاسداران انقلاب گارڈ کو بین الاقوامی دہشتگرد قرار دیا جاچکا ہے۔ٹیمی بروس نے کہا کہ ایران کو نیوکلیئر اور بیلسٹک میزائل پروگرام کا پھیلاؤ روکنا ہوگا۔انہوں نے مزید کہا کہ امریکا آنے والے افراد کو امریکی قوانین کی پابندی کرنا ہوگی۔
اسرائیلی فورسز کے عید پر غزہ میں حملوں کے نتیجے میں بچوں سمیت 64 افراد شہید ہوگئے۔
فلسطینی حکام کے مطابق رفح کے قریب اسرائیلی فائرنگ کے ایک ہفتے بعد 14 لاشیں برآمد ہوئی ہیں۔یہ لاشیں طبی عملے کے 8 ارکان، شہری دفاع کے 5 کارکنوں اور ایک یو این ملازم کی ہیں۔دوسری جانب فرانسیسی صدر میکرون نے اسرائیل سے غزہ پر حملے بند کر کے جنگ بندی پر عمل کرنے کا مطالبہ کردیا ہے۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق فرانسیسی صدر میکرون کا اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو سے ٹیلی فونک رابطہ ہوا تھا۔
غزہ میں اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے شہید ہونے والے فلسطینی ہلال احمر کے 14 ارکان کی لاشیں مل گئیں۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق فلسطینی ہلال احمر نے اعلان کیا ہے کہ غزہ کی پٹی میں اس کے عملے کے 14 ارکان ایمبولینس پر فائرنگ کے نتیجے میں شہید ہوگئے ہیں۔ہلال احمر کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ان شہید ہونے والوں میں 8 ہلال احمر کے پیرا میڈکس، 5 سول ڈیفنس اور 1 اقوام متحدہ کا ملازم شامل ہے۔اسرائیل فوج نے 23 مارچ کو جنوبی غزہ کے علاقے رفح میں ایمبولینس پر فائرنگ کرنے کا اعتراف کیا تھا۔
Post your comments