یونیسف نے اسرائیل کی جانب سے مسلط کردہ ناکہ بندی کی وجہ سے پیدا ہونے والے بھوک کے بحران پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق یونیسیف کی جانب سے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا کہ غزہ میں غذائی کی کمی صورتحال تشویشناک ہے، اس وجہ سے وہاں کے بچے موت میں کے منہ جارہے ہیں۔یونیسیف نے اسرائیل کی جانب سے مسلط کردہ محاصرے کو انسان کا بنایا ہوا بحران قرار دیا ہے۔یونیسیف نے اقوام متحدہ پر زور دیا کہ اب تک بہت دیر ہوچکی، بس اب وہاں لوگوں کو جلد از جلد ہر قسم کی امداد پہنچانے کی اجازت دی جائے۔پچھلے 24 گھنٹوں میں 18 فلسطینیوں کی موت بھوک کی وجہ سے ہوئی۔ ماہرین کے مطابق غزہ میں حکام کے خیال میں غزہ میں بھوک سے جاں بحق ہونے والوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے کی جانب سے مزید کہا گیا ہے کہ وہاں غذا انتہائی محدود اور صاف پانی بالکل نچلی سطح پر جاچکا ہے۔
امریکا کے ڈیموکریٹک سینیٹر ٹم کین نے ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے 5 سو میٹرک ٹن غذا ضائع کرنے پر نائب وزیر برائے مینجمنٹ اور ریسورس مائیکل ریگاس پر طنز کی بھرمار کردی۔
انہوں نے استفسار کیا کہ سینیٹ کی امور خارجہ کمیٹی کے رکن نے مائیکل ریگاس سے پوچھا کہ فاقہ کشی کا شکار بچوں میں بانٹنے کے لیے خریدا گیا فوڈ آخر جلا کر ضائع کرنے کا فیصلہ کیوں کیا گیا۔ٹم کین نے کہا کہ جب مارچ میں ہی خبردار کردیا گیا تھا کہ جولائی میں اس فوڈ کے استعمال کی معیاد ختم ہوجائے گی تو اس کا بہتر استعمال کیوں نہیں کیا گیا۔ یہ فوڈ دبئی میں یوایس ایڈ کے دفتر میں بند کیوں رکھا گیا اور اسے بلاخر جلا کر ضائع کیوں کرنا پڑا۔سینیٹر کین نے کہا کہ یہ امریکی شہریوں کے ٹیکس سے خریدا گیا فوڈ تھا اور یہ فاقہ زدہ 27 ہزار بچوں کیلیے ایک ماہ کی خوراک بن سکتا تھا۔ آخراسے اُسی مقصد کیلیے استعمال کیوں نہ کیا گیا۔ریگاس لاجواب تھے مگر انہوں نے کہا کہ وہ اس معاملے کو دیکھیں گے تاہم ٹم کین نے کہا کہ انہوں نے ایک روز پہلے بھی سماعت میں یہ سوال اٹھایا تھا تاکہ آپ جواب کے لیے تیار ہوکر آئیں، اس لیے یہ کہنا کہ میں دیکھوں گا، کافی عجیب لگتا ہے۔جس پر ریگاس کو تسلیم کرنا پڑا کہ ان کے پاس اس سوال کا مناسب جواب نہیں ہے۔
Post your comments