کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے وزارت عظمیٰ اور پارٹی سربراہ کے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کردیا۔
برطانوی میڈیا کے مطابق حکمران جماعت لیبر پارٹی کے نئے سربراہ کے انتخاب تک جسٹن ٹروڈو نگراں کے طور پر کام کرتے رہیں گے۔اس سلسلے میں جسٹن ٹروڈو کا کہنا تھا کہ میں فائٹر ہوں اور آسانی سے پیچھے نہیں ہٹتا، مگر میں نے محسوس کیا کہ لبرل پارٹی کے ساتھیوں کی حمایت کے بغیر یہ کام ناممکن ہے۔جسٹن ٹروڈو نے پارٹی لیڈر شپ سے اپنے استعفے کی وجوہات بیان کرتے ہوئے کہا کہ لبرل پارٹی کی اندرونی لڑائیوں سے یہ بات ظاہر ہوگئی تھی کہ میں اگلے الیکشن میں لبرل پارٹی کے معیار کو لے کر نہیں چل سکتا۔انہوں نے کہا کہ انہوں نے اپنے ادوارِ حکومت میں غربت کو کم کرنے کی کوشش کی، مقامی لوگوں کے ساتھ مفاہمت کو آگے بڑھایا۔ شمالی امریکا میں آزاد تجارت کےلیے جدوجہد کی، موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کےلیے کام کیا اور روس کے ساتھ جنگ میں یوکرائن کا ساتھ دیا۔جسٹن ٹروڈو کا کہنا تھا کہ انہوں نے پارٹی لیڈرشپ سے مستعفی ہونے کا فیصلہ اپنے اہلِ خانہ کے مشورہ کے بعد کیا۔ رات کے کھانے میں اپنے بچوں کو اس فیصلے سے آگاہ کیا۔انہوں نے کہا کہ کینیڈین شہری اگلے الیکشن میں حقیقی انتخاب کے مستحق ہیں، ’اندرونی لڑائیوں‘ کی وجہ سے وہ اگلے الیکشن میں لبرلز کے لیڈر نہیں بن سکتے۔ٹروڈو کا کہنا تھا کہ وہ اس عمل کو دیکھ کر بہت پرجوش ہیں جو آنے والے مہینوں میں ان کی جگہ لے گا۔یاد رہے کہ 2013 میں جسٹن ٹروڈو لبرل پارٹی آف کینیڈا کے لیڈر منتخب ہوئے اور 2015 سے تین بار انتخابات میں 10 سال تک وہ کینیڈا کے وزیراعظم رہے۔ ٹروڈو کینیڈین پارلیمنٹ کو تاریخ کی طویل ترین اقلیتی پارلیمنٹ کہتے ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ پارلیمنٹ ’مہینوں سے مفلوج‘ رہی ہے۔ اسی لیے ملک کو پارلیمنٹ کے نئے اجلاس کی ضرورت ہے اور ایوان کو 24 مارچ تک ملتوی کر دیا جائے گا۔خیال رہے کہ گزشتہ ماہ کے وسط میں فری لینڈ نے اچانک استعفیٰ دے دیا تھا، جس سے ٹروڈو کی قیادت پر دباؤ بڑھ گیا تھا۔
کینیڈا کے وزیرِاعظم جسٹن ٹروڈو نے گزشتہ روز وزارتِ عظمیٰ اور لبرل پارٹی آف کینیڈا کے لیڈر کے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔
جسٹن ٹروڈو نے اوٹاوا میں پریس کانفرنس میں مستعفی ہونے کا اعلان کرتے ہوئے بطور وزیرِ اعظم حاصل کی گئی اپنی کامیابیوں کے ساتھ ساتھ اپنے دورِ اقتدار میں پیش آنے والی مشکلات کا بھی ذکر کیا۔اُنہوں نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ویسے تو اگر میں غور کروں تو شاید بہت سارے پچھتاوے ہوں لیکن اگر ان میں سے کسی ایک کی بات کروں تو وہ یہ ہے کہ ہم عام انتخابات سے پہلے کینیڈا کے انتخابی عمل میں اصلاحات کرنے میں ناکام رہے۔کینیڈین وزیرِ اعظم نے مزید کہا کہ میری خواہش ہے کہ ہم اس ملک میں عام انتخاب کے طریقۂ کار کو تبدیل کرنے میں کامیاب ہو جائیں تاکہ لوگ ایک ہی بیلٹ پر اپنی مرضی کے رہنما کو منتخب کر سکیں۔اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ ملک اگلے انتخابات میں حقیقی انتخاب کا مستحق ہے اور مجھ پر یہ واضح ہو گیا ہے کہ ایسے وقت میں جب لبرل پارٹی آف کینیڈا کے اندر ہی بہت سے اختلافات موجود ہیں تو میں وزارتِ عظمیٰ کے انتخاب کے لیے بہترین آپشن نہیں ہو سکتا۔
Post your comments