ٹرمپ امریکی تاریخ کے امیرترین صدر ہیں بلومبرگ بلینیئرز انڈیکس کے مطابق جون 2024تک ٹرمپ کی دولت 21 کھرب 40ارب روپے(7ارب70کروڑ ڈالر) ہے۔ اس سے پہلے جان ایف کینڈی ایک ارب30 کروڑ ڈالر دولت کے ساتھ امیرترین صدر تھے۔ ٹرمپ گولف کورسز،اعلیٰ رہائشی جائیدادوں، شراب خانے اور 1991کے بوئنگ 757کا بھی مالک ہے جس کا نام ٹرمپ فورس ون ہے۔وہ امریکی تاریخ میں واحد صدر ہیں جن کا کانگریس نے دو بار مواخذہ کیا ہے۔ گارڈین کے مطابق ٹرمپ کو تاریخ کا بدترین امریکی صدر قرار دیا گیا۔امریکی تاریخ کے بوڑھے ترین صدرکا اعزاز بھی ٹرمپ کا ہی ہے ، وہ 20جنوری 2025 کو 78سال221دن کی عمر میں حلف اٹھائیں گے۔ جوبائیڈن نے78سال61دن کی عمر میں حلف اٹھایا تھا۔ تاریخ کےبدترین امریکی صدر قرارپانے والے ٹرمپ دوبارہ صدر بن گئے۔فوربز کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ ایک بزنس مین، رئیل اسٹیٹ ٹائیکون اور رئیلٹی ٹی وی اسٹار بننے سے لیکر ملک کے پہلے امریکی صدر بن گئے جنہیں سزا یافتہ مجرم قرار دیا گیا۔
امریکی صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی جماعت ریپبلکن پارٹی کی شاندار کامیابی کے بعد اب امریکا کیسا ہو گا؟ یہ سوال امریکا سمیت دنیا بھر میں گردش کر رہا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت نے امریکی اور بین القوامی سیاسی منظر نامے میں ہلچل پیدا کر دی ہے۔ امریکی صدارتی انتخابات میں عوام کی بڑی تعداد نے ڈونلڈ ٹرمپ کے جارحانہ طرزِ سیاست اور تبدیل شدہ امریکی پالیسیوں کو واپس لانے کی خواہش ظاہر کی۔امریکا میں ووٹرز کی اکثریت معاشی مسائل، امیگریشن قوانین کی سختی اور امریکی حکومت میں ڈرامائی تبدیلیاں چاہتی تھی، جسے ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے منشور میں جگہ دی اور پھر کامیابی سے ہم کنار ہوئے۔اس کامیابی کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ ایک ایسی حکومت کی تشکیل کا ارادہ رکھتے ہیں جو ان کے مخالفین پر کڑی نظر رکھے، بڑے پیمانے پر تارکینِ وطن کو نکالے اور امریکی اتحادیوں کے لیے سخت پالیسی بنائے۔مذکورہ اقدامات کے ذریعے ٹرمپ ایک مضبوط امریکی قوم کا جو نظریہ پیش کر رہے تھے وہ نوجوان ووٹرز میں مقبول ہوا۔ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ بھی کہا تھا کہ ان کی حکومت میں کوئی روایتی رکاوٹ نہیں ہو گی کیونکہ انہوں نے پہلے سے ہی اپنی ایڈمنسٹریشن میں وفادار افراد کو اہم عہدوں پر تعینات کرنے کا عندیہ دیا ہے جو ان کے ہر حکم کو نافذ العمل کریں گے۔اب صدارتی انتخابات میں ٹرمپ کی کامیابی کے بعد امریکی سیاست کے مستقبل پر کئی سوالات اٹھ رہے ہیں اور یہ دیکھنا دلچسپ ہو گا کہ وہ اپنی پالیسیوں پر کس حد تک عمل کروانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔
Post your comments