صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی محکمہ دفاع کا نام بدل کر محکمہ جنگ رکھتے ہوئے کہا کہ یہ نام دنیا کو امریکی قوت کا پیغام دے گا۔
محکمہ جنگ کا نام رکھنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا کہ موجودہ عالمی صورتحال کے پیش نظر نیا نام زیادہ موزوں ہے۔انہوں نے کہا کہ تجارت اور طاقت کے زور پر ہم نے دنیا میں 7 جنگیں رکوائیں، یوکرین سے متعلق سیکیورٹی معاہدہ زیر غور ہے، یوکرین کو سیکیورٹی ضمانت دینے پر کام کررہے ہیں۔ صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ حماس سے سنجیدہ بات چیت کر رہے ہیں، اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا نہ کیا گیا تو سخت اقدامات کیے جائیں گے۔انہوں نے کہا کہ یرغمالیوں پر احتجاج نے اسرائیل کو پیچیدہ پوزیشن میں لا کھڑا کیا ہے۔صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ وینزویلا کےطیاروں نے امریکی بحری جہاز کے قریب پرواز کی تو مار گرائیں گے ۔ٹرمپ کا مزید کہنا تھا کہ بھارت کی جانب سے روسی تیل خریدنا مایوس کن ہے، ہم نے بھارت پر 50 فیصد بڑا ٹیرف لگایا ہے۔
عالمی سیاست ایک نئے موڑ پر داخل ہو رہی ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ اور ولادیمیر پوتن کی حالیہ ملاقاتوں نے اُس عالمی نظام کو ہلا دیا ہے جو سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد امریکا نے اپنی شرائط پر قائم کیا تھا۔ غیر ملکی میڈیا میں شائع ہونے والے روسی ماہر کار فیودور لوکیانوف کے تجزیے کے مطابق، 1980ء کی دہائی میں امریکا اور سوویت یونین دونوں معاشی اور سیاسی دبائو میں تھے۔ ریگن اور گورباچوف کی ملاقاتوں نے کشیدگی کم کی اور سرد جنگ کے خاتمے کا راستہ بنایا۔ نتیجتاً امریکا واحد سپر پاور بن کر ابھرا اور دنیا کا نظام اس کے کنٹرول میں آ گیا۔ 2025ء میں حالات بدل چکے ہیں۔ امریکا خود اندرونی مسائل اور اپنے ہی زیر تسلط ورلڈ آرڈر کے وزن سے دبائو کا شکار ہے جبکہ روس اور دیگر طاقتیں عالمی نظام کی دوبارہ تقسیم پر زور دے رہی ہیں۔ لوکیانوف کے مطابق ٹرمپ اور پوتن کی ملاقاتیں بظاہر ریگن اور گورباچوف کے درمیان مذاکرات کی یاد دلاتی ہیں، لیکن اس مرتبہ مقصد پرانا نظام ختم کرنا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ امریکا نے بھارت اور روس کو چین کے ہاتھوں کھو دیا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے چین کے صدر کے ساتھ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن کی تصویر سوشل میڈیا پر شیئر کی۔امریکی صدر نے طنزیہ انداز میں لکھا کہ خدا کرے دونوں ممالک کا چین کے ساتھ مستقبل طویل اور خوشحال ہو۔2 روز پہلے بھی امریکی صدر ٹرمپ نے چینی صدر شی جن پنگ کو طنزیہ پیغام میں کہا تھا کہ امریکا کے خلاف سازش کرتے ہوئے پیوٹن اور کم جونگ کو ان کی نیک خواہشات پہنچائیں۔ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ چین کی فوجی پریڈ کی تقریب خوبصورت اور بے حد متاثر کن تھی، چینی صدر کی تقریر دیکھی، صدر شی جن پنگ میرے دوست ہیں، ان کی تقریر میں امریکا کا ذکر ہونا چاہیے تھا۔ان کا کہنا تھا کہ امریکا نے چین کی بہت زیادہ مدد کی تھی، اگلے ایک دو ہفتے میں معلوم ہو گا کہ روس سے تعلقات کتنے اچھے ہیں، آنے والے دنوں میں روسی صدر پیوٹن سے بات کروں گا۔امریکی صدر کا مزید کہنا تھا کہ روسی صدر پیوٹن کے لیے کوئی پیغام نہیں ہے، روسی صدر کو معلوم ہے کہ میرا کیا مؤقف ہے، وہ صرف کسی نہ کسی طرح فیصلہ کر لیں گے۔ٹرمپ نے یہ بھی کہا تھا کہ روس کا جو فیصلہ ہو گا ہم اس پر خوش ہوں گے یا ناخوش، اگر ہم ناخوش ہوئے تو آپ چیزیں ہوتی دیکھیں گے۔

























Post your comments