غزہ پر اسرائیلی حملوں نے فلسطین کے 902 خاندانوں کا نام و نشان مٹا دیا، ان خاندانوں کے تمام افراد گزشتہ سال کے دوران شہید کر دیے گئے۔
عرب میڈیا کی رپورٹ کے مطابق تقریباً 1364 فلسطینی خاندان ایسے ہیں جن کا صرف ایک فرد باقی بچا ہے، جبکہ 3472 کے قریب ایسے فلسطینی خاندان ہیں جن کے صرف 2 افراد زندہ ہیں۔عرب میڈیا کے مطابق 17 ہزار سے زیادہ بچے والدین میں سے کسی ایک یا دونوں کو کھو چکے ہیں تازہ حملے میں اسرائیلی فوج نے غزہ میں کلینک پر بمباری کرکے نومولود سمیت 4 افراد کو شہید کردیا جبکہ متعدد زخمی ہوئے۔عرب میڈیا کی رپورٹ کے مطابق کلینک میں بے گھر فلسطینی پناہ لیے ہوئے تھے۔میڈیا رپورٹ کے مطابق دیرالبلاح میں ایک گھر میں اسرائیلی بمباری میں دو فلسطینی شہید اور متعدد زخمی ہوگئے، مغازی پناہ گزیں کیمپ میں فلسطینیوں کے گروپ پر ڈرون حملے میں 2 فلسطینی شہید ہوئے۔خیال رہے کہ 7 اکتوبر 2023ء کے بعد سے غزہ میں اسرائیلی بمباری سے اب تک 42 ہزار 126 افراد شہید اور 98 ہزار 117 زخمی ہوگئے ہیں۔
اقوام متحدہ کے امن دستوں پر حالیہ صہیونی حملوں پر عرب میڈیا کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایسا لگتا ہے اسرائیل اقوام متحدہ سے بھی جنگ کرنے پر اتر آیا ہے۔
اسرائیلی فوج نے جنوبی لبنان میں اقوام متحدہ کے امن مشن یونیفل (UNIFIL) کے زیر استعمال ایک نگرانی کے ٹاور پر فائرنگ کی، جس سے 2 افراد زخمی ہوگئے۔اقوام متحدہ کے امن مشن کے سربراہ نے سلامتی کونسل کو بتایا کہ لبنان میں امن مشن کے اہلکاروں کی سلامتی اور تحفظ “بڑھتے ہوئے خطرے میں” ہے، کیونکہ اسرائیلی افواج نے ملک کے جنوبی حصے میں یونیفل کی چوکیوں پر فائرنگ کی، جس سے دو افراد زخمی ہوئے۔الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کی فورسز ایک بار پھر اسرائیلی حملوں کا شکار ہو رہی ہیں اور اس کو بہت سنجیدگی سے لیا جا رہا ہے۔اقوام متحدہ کے ایک اہلکار کا کہنا ہے کہ ایسا لگتا ہے جیسے اسرائیل اقوام متحدہ کے ساتھ جنگ کرنے جا رہا ہے۔اقوام متحدہ نے اسرائیلی حکومت کو خطوط بھیجے ہیں، جس میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل جانتا ہے کہ یہ ایک امن مشن ہے اور اس کے مقام سے بھی آگاہ ہے۔عالمی ادارے نے اپنے خط میں کہا کہ یہ 4 دنوں میں چوتھا حملہ ہے۔ ایک حملے کو جنگی دھند کی وجہ قرار دیا جا سکتا ہے، لیکن 4 حملے جان بوجھ کر نشانہ بنانے کے مترادف ہیں۔اس علاقے میں یونیفل کا ایک مشاہداتی ٹاور ہے۔ اس مشن کی ایک وجہ مشاہدہ کرنا اور سرحدی خلاف ورزیوں پر نظر رکھنا ہے۔ وہ اسرائیل اور لبنان کے ساتھ رابطہ کرتے ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا کہ اس صورتحال پر لوگ سوال اٹھا رہے ہیں کہ اسرائیل کا اقوام متحدہ کے ساتھ کیا مؤقف ہے کیونکہ یہ صورتحال صرف یہاں نہیں ہو رہی ہے۔
یاد رہے کہ اقوام متحدہ کے عارضی دستے برائے لبنان (یونیفل) ایک امن فوج ہے جو اقوام متحدہ کی جانب سے لبنان اور اسرائیل کے درمیان موجود “بلیو لائن” کے ساتھ امن و امان برقرار رکھنے اور نگرانی کے لیے قائم کی گئی ہے۔اس فورس میں تقریباً 10 ہزار امن فوجی شامل ہیں جن کی ذمہ داری علاقے میں استحکام قائم رکھنا اور دونوں فریقین کو جنگ بندی کی پاسداری کرنے کا پابند بنانا ہے۔اقوام متحدہ کے عارضی دستے برائے لبنان کو 1978 میں اس وقت قائم کیا گیا جب اسرائیل نے فلسطینی حملے کے جواب میں لبنان پر حملہ کیا۔ اسرائیل نے 2000 تک جنوبی لبنان پر قبضہ کیے رکھا اور بعد میں اپنے انخلا کا اعلان کیا۔ اقوام متحدہ نے اس انخلا کی تصدیق کی۔2006 کی جنگ کے بعد، جس میں حزب اللّٰہ اور اسرائیل کے درمیان لڑائی ہوئی، اقوام متحدہ نے یونیفل کا دائرہ کار بڑھا دیا تاکہ مزید جنگ سے بچا جا سکے۔ اقوام متحدہ کے عارضی دستے برائے لبنان کی فورس جنوبی لبنان میں کلیدی کردار ادا کر رہی ہے اور اس کے آپریشنز اسرائیل اور حزب اللّٰہ کے درمیان نازک امن کو برقرار رکھنے میں اہم ہیں۔حالیہ دنوں میں، اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے ان دستوں کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔
Post your comments