نیب نے نواز شریف اور ان کے اہل خانہ کیخلاف شریف ٹرسٹ کیس میں انوسٹی گیشن بند کر دی ہے۔ نیب کی جانب سے اپنی ویب سائٹ پر جاری کردہ اعلان کے مطابق، یکم جنوری 2024ء کو ہونے والی بیورو کی ایگزیکٹو بورڈ میٹنگ (ای بی ایم) کے فیصلے کے بعد نواز شریف اور ان کی فیملی کے ارکان کیخلاف شریف ٹرسٹ کیس میں انوسٹی گیشن بند کر دی گئی ہے۔
شریف ٹرسٹ کیس میں انوسٹی گیشن کی منظوری 31؍ مارچ 2000ء کو دی گئی تھی۔ شکایت میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ شریف فیملی نے خفیہ طور پر شریف ٹرسٹ میں کروڑوں روپے وصول کیے ہیں۔ یہ الزام بھی عائد کیا گیا کہ ٹرسٹ کے کھاتوں کا آڈٹ نہیں کرایا گیا اور رقوم میں خرد برد کی گئی ہے۔
یہ بھی الزام لگایا گیا کہ شریف خاندان نے اثاثے بنا رکھے ہیں جو ٹرسٹ کے نام پر بے نامی جائیدادوں کے طور پر رکھے گئے تھے۔ پانامہ پیپرز میں تشکیل دی گئی متنازع جے آئی ٹی کی جانب سے سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں کہا تھا کہ 2000ء میں منظوری کے بعد سے شریف ٹرسٹ کیس میں انوسٹی گیشن کو نیب نے بلا جواز تاخیر کا شکار کر رکھا ہے۔
پانامہ جے آئی ٹی نے تجویز دی تھی کہ نیب کو ہدایت کی جائے کہ وہ قلیل مدت میں انوسٹی گیشن مکمل کرنے کیلئے تمام ضروری اقدامات کرے۔ اب، نیب نے شہباز شریف حکومت کی جانب سے ترمیم شدہ نیب ایکٹ 2022ء کے سیکشن 31 بی کے تحت انوسٹی گیشن بند کر دی ہے۔
اس قانون کے سیکشن 31؍ بی ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے:’’زیر التواء کارروائی کو واپس لینا اور ختم کرنا:۔ (1) کسی ریفرنس کی پیروی سے قبل، چیئرمین، نیب پراسیکیوٹر جنرل کے ساتھ مشاورت سے، حقائق، حالات اور شواہد کی مجموعی حیثیت کو دیکھتے ہوئے، جزوی طور پر اس ایکٹ کے تحت کسی بھی کارروائی کو مکمل طور پر، مشروط یا غیر مشروط طور پر واپس لے سکتے ہیں یا ختم کر سکتے ہیں، بشرطیکہ یہ غیر منصفانہ ہو۔
(2) ریفرنس دائر کرنے کے بعد، اگر چیئرمین نیب پراسیکیوٹر جنرل کی مشاورت سے، حقائق، حالات اور شواہد کی کُلیت کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ خیال کرے کہ ریفرنس جزوی یا مکمل طور پر ناجائز ہے، تو وہ سفارش کر سکتا ہے کہ جس عدالت میں یہ معاملہ زیر التوا ہے کہ وہاں ریفرنس جزوی طور پر یا مکمل طور پر واپس لیا جا سکتا ہے یا ختم کیا جا سکتا ہے۔
(i) اگر یہ ریفرنس الزام عائد کیے جانے سے پہلے بنایا گیا ہو، تو ملزم کو اس معاملے میں ڈسچارج کر دیا جائے گا، اور (ii) اگر یہ ریفرنس الزام عائد کیے جانے کے بعد دائر کیا گیا ہے، تو وہ ایسے جرم یا جرائم کے سلسلے میں وہ بری ہو جائے گا۔ نواز شریف کیس کے علاوہ، پانچ انکوائریز کو بھی بند کیا گیا ہے۔
ان میں پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی کے سابق چیف آپریٹنگ افسر اکبر ناصر خان، دیگر افسران، اہلکاروں اور دیگر کیخلاف انکوائری،1998ء میں سوشل ایکشن پروگرام (ایس اے پی) کے تحت کاؤنٹر فنڈ کے قیام کیلئے پاکستان اور جاپان کی حکومتوں کے درمیان ڈھائی سو ملین ڈالرز (11؍ ارب روپے یا 32.032؍ ملین ین) کے قرضے کے حصول کیلئے کیے گئے معاہدے کے حوالے سے سرکاری عہدیداروں اور دیگر کیخلاف شروع کی جانے والی انکوائری شامل ہے۔
پارک انکلیو ہاؤسنگ سوسائٹی کے حوالے سے سی ڈی اے کے افسران اور اہلکاروں کیخلاف انکوائری، اسلام آباد کی پبلک لمیٹڈ کمپنیوں میں من پسند افراد کی غیر قانونی بھرتی اور متعلقہ قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اربوں روپے کے فنڈز کے اجراء کے حوالے سے وفاقی حکومت کے ملازمین اور افسران کیخلاف انکوائری اور شاہد ملک، شہباز یاسین ملک، صائمہ شہباز ملک اور دیگر کیخلاف انکوائری شامل ہے۔
Post your comments