class="post-template-default single single-post postid-3269 single-format-standard kp-single-standard elementor-default elementor-kit-7">

طے کر لیں ہم کسی سیاسی طاقت یا انٹیلی جنس ادارے کے ہاتھوں استعمال نہیں ہوں گے، چیف جسٹس پاکستان

اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز کے خط پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس میں کہا ہے کہ طے کر لیں ہم کسی سیاسی طاقت یا انٹیلی جنس ادارے کے ہاتھوں استعمال نہیں ہوں گے، کسی وکیل گروپ یا حکومت کے ہاتھوں استعمال نہیں ہوں گے، کئی واقعات بتا سکتے ہیں جب مداخلت ہوئی، اگر میرے کام میں مداخلت ہو اور میں نہ روک سکوں تو مجھے گھر چلے جانا چاہیے، ججز کا حکم نامہ دکھاتا ہے، بتاتا ہے، چیختا ہے کہ کتنی مداخلت ہوئی ہے۔جسٹس ا طہرمن اللّٰہ نے کہا کہ آپ نے اپنے کنڈکٹ سے مداخلت کو ثابت کر دیا، گزشتہ سماعت سے ججز کے خلاف نفرت انگیز مہم چلائی گئی، قیاس یہ ہے کہ ریاست نے ججوں کے ذاتی ڈیٹاحاصل کیے۔جسٹس نعیم اختر افغان نے سوال اٹھایا کہ آئی بی، آئی ایس آئی اور ایم آئی کس قانون کے تحت بنیں؟ یہ ایجنسیاں کس قانون کے تحت کام کرتی ہیں؟ آئندہ سماعت پر تینوں ایجنسیوں کے قانون بتائے جائیں۔عدالتِ عظمیٰ نے مزید سماعت 7 مئی تک ملتوی کر دی جبکہ 6 مئی تک درخواست گزاروں کو تجاویز جمع کرانے کی ہدایت کر دی۔

سپریم کورٹ آف پاکستان میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز کے خط پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت

 چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 6 رکنی بینچ نے کی۔6 رکنی بینچ میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس جمال مندوخیل،جسٹس اطہر من اللّٰہ، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس نعیم اختر افغان شامل ہیں۔

اٹارنی جنرل کے دلائل

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان کے عدالت میں دلائل جاری ہیں۔چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے عدالت میں موجود وکلاء اور دیگر غیر متعلقہ افراد کو ہدایت کی عدالت میں سنجیدگی سے بیٹھیں، بیٹھنے کی جگہ نہیں مل رہی تو چلے جائیں ورنہ خاموش رہیں، عدالت کی سماعت کو سنجیدہ لیں، کسی کوعدالت میں بات چیت کرنی ہے تو باہر بھیج دیں گے، کون سی چیزیں ہیں جو ہائی کورٹ کے دائرہ اختیار میں نہیں آتیں، تمام ہائی کورٹس سے تجاویز مانگی ہیں۔اٹارنی جنرل نے اسلام آباد ہائی کورٹ کی تجاویز پڑھ کر سنائیں۔

جسٹس یحییٰ کی سماعت سے معذرت آسان نہ سمجھی جائے: چیف جسٹس

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سماعت کے آغاز سے پہلے کچھ چیزوں کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں، سپریم کورٹ کی کمیٹی نے آرٹیکل 184/3 کے تحت سماعت کا فیصلہ کیا، کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ جو ججز اسلام آباد میں دستیاب ہیں سب کو بلا لیا جائے، اس معاملے پر سماعت کے لیے ججوں کو منتخب نہیں کیا گیا، جسٹس یحییٰ آفریدی نے خود کو بینچ سے الگ کیا، جسٹس یحییٰ آفریدی نے اس پر اپنا حکم نامہ بھی جاری کیا، ہر جج کا نقطۂ نظر اہم ہے، جسٹس یحییٰ آفریدی کی سماعت سے معذرت کو آسان معاملہ نہ سمجھا جائے، میں نے نشاندہی کی تھی کہ شاید اگلی سماعت پر فل کورٹ ہو، 2 ججز کی دستیابی نہیں تھی، اس لیے فل کورٹ نہیں بلایا جا سکا، دیگر دستیاب ججز ملے اور کہا کہ سماعت ملتوی ہوئی تو مسئلہ ہو گا، ججز نے کہا کہ پہلے ہی ملک میں تقسیم ہے، لوگ شاید عدلیہ کی آزادی سے زیادہ اپنے نقطۂ نظر کے پرچار میں دلچسپی رکھتے ہیں، یہ انتہائی تکلیف دہ تھا کہ سابق چیف جسٹس پر تنقید کے نشتر برسائے گئے، اگر کوئی اپنی مرضی اس عدالت پر مسلط کرنا چاہے تو وہ بھی مداخلت ہے۔

About the author /


Related Articles

Post your comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Newsletter