پاکستان اور افغانستان کے شمالی پہاڑی خطے ایک ایسی تہذیبی گہماگہمی کے حامل ہیں، جو صدیوں سے اپنے اندر نسلی، لسانی اور ثقافتی تنوع سموئے ہوئے ہیں۔ ان ہی خطوں میں ایک برادری ’’کوہستانی‘‘ کے نام سے جانی جاتی ہے، جس کی شناخت آج بھی ایک سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے۔ ’’کوہستانی کون ہیں؟‘‘ یہ سوال نہ صرف علمی حلقوں میں زیرِ بحث ہے بلکہ عام لوگوں کے درمیان بھی غلط فہمیوں کا باعث بنا ہوا ہے۔ اس تحقیقی کالم کا مقصد اسی شناخت کی تہوں کو کھولنا ہے، تاکہ حقیقت کو غلط فہمیوں سے الگ کیا جا سکے۔
لفظ ’’کوہستانی‘‘ بظاہر ایک جغرافیائی نسبت ہے، جو پہاڑوں میں بسنے والے لوگوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ مگر وقت کے ساتھ یہ لفظ ایک نسلی اور لسانی شناخت میں ڈھل گیا ہے۔ پاکستان میں ہزارہ ڈویژن کا ضلع کوہستان، سوات کوہستان، دیر کوہستان اور انڈس کوہستان اس نسبت کی نمائندگی کرتے ہیں، جبکہ افغانستان میں نورستان، کنڑ اور کاپیسا کے علاقے بھی اسی شناخت سے جڑے ہوئے ہیں۔ ان علاقوں میں بسنے والے لوگ خود کو کوہستانی کہتے ہیں، اور آس پاس کے پشتو اور ہندکو بولنے والے بھی انہیں اسی نام سے پکارتے ہیں۔
تاہم، کوہستانی شناخت کی پیچیدگی اس وقت سامنے آتی ہے جب ہم لسانی پہلو کو دیکھتے ہیں۔ ان علاقوں میں بولی جانے والی زبانیں جیسے توروالی، گاؤری، شینا، گوارباتی، بٹیڑی اور چیلیسو، دردی زبانوں کی شاخیں ہیں۔ یہ زبانیں ایک دوسرے سے صوتیاتی طور پر قریب ہونے کے باوجود، اکثر آپس میں غیرمترجم رہتی ہیں۔ بحرین کے کوہستانی کالام کے کوہستانیوں سے پشتو میں بات کرتے ہیں، اور انڈس کوہستان میں دریائے سندھ کے دونوں کناروں کے لوگ اردو کے ذریعے ایک دوسرے سے رابطہ کرتے ہیں۔ یہ لسانی تنوع اس بات کا ثبوت ہے کہ کوہستانی شناخت ایک وسیع تر ثقافتی چھتری ہے، جو مختلف بولیوں اور قبائل کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔
یہی تنوع بعض اوقات غلط فہمیوں کو جنم دیتا ہے۔ عام طور پر یہ تصور پایا جاتا ہے کہ سارے کوہستانی ایک ہی زبان بولتے ہیں، حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ بعض لوگ انہیں گوجر قوم کا حصہ سمجھتے ہیں، تو بعض انہیں پشتون یا ہندکو بولنے والوں سے جوڑتے ہیں۔ یہ غلط فہمیاں اس وقت مزید پیچیدہ ہو جاتی ہیں جب حکومتی سطح پر لسانی منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔ خیبر پختونخوا حکومت نے 2011ء میں کوہستانی زبان کو تعلیمی نصاب میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا، مگر جب نصاب کی تیاری شروع ہوئی تو شینا کوہستانی اور انڈس کوہستانی بولنے والوں کے درمیان اختلافات سامنے آئے۔ دونوں کا دعویٰ تھا کہ ان کی زبان ہی اصل کوہستانی ہے، نتیجتاً منصوبہ تعطل کا شکار ہو گیا۔
نسلی سطح پر بھی کوہستانی شناخت کو یکساں طور پر تسلیم نہیں کیا جاتا۔ بعض محققین کے مطابق کوہستانی لوگ ان علاقوں کے قدیم ترین باشندے ہیں، جن سے پہلے یہاں کوئی اور قوم آباد نہیں رہی۔ بلکہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آس پاس کے علاقوں میں بسنے والے کئی لوگ اصل میں کوہستانی نسل سے تعلق رکھتے ہیں، جنہوں نے وقت کے ساتھ اپنی زبان ترک کرکے پشتو، ہندکو یا دیگر زبانیں اپنا لی ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کوہستانی شناخت کا دائرہ صرف موجودہ بولنے والوں تک محدود نہیں بلکہ اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جن کی نسلی جڑیں کوہستانی علاقوں سے وابستہ ہیں۔
عالمی سطح پر بھی کوہستانی شناخت کی جھلکیاں نظر آتی ہیں۔ برطانوی ماڈل حماسہ کوہستانی، افغانی ایتھلیٹ تہمینہ کوہستانی اور صحافی ایلی کوہستانی نے اپنے نام کے ذریعے اس شناخت کو عالمی منظرنامے پر اُجاگر کیا۔ حتیٰ کہ نوّے کی دہائی میں افغانستان کے ایک وزیراعظم عبدا لصبور فرید کوہستانی بھی گزرے ہیں، جنہوں نے اس نام کو سیاسی سطح پر نمایاں کیا۔ یہ مثالیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ کوہستانی شناخت صرف مقامی یا ثقافتی حوالوں تک محدود نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی ایک پہچان بن چکی ہے، جو مختلف شعبوں میں نمایاں ہو کر اپنی موجودگی کا احساس دلاتی ہے۔
کوہستانی شناخت کی تہہ دار نوعیت اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ یہ صرف ایک جغرافیائی حوالہ نہیں بلکہ ایک تاریخی، ثقافتی اور لسانی مظہر ہے۔ ان پہاڑی خطوں میں بسنے والے لوگ صدیوں سے مختلف زبانیں، رسم و رواج اور طرز زندگی اپنائے ہوئے ہیں، جو اس ش ناخت کو مزید گہرا اور پیچیدہ بناتے ہیں۔ کوہستانی برادری کی زبانیں اگرچہ دری لسانی خاندان سے تعلق رکھتی ہیں، مگر ان کے درمیان فرق اور تنوع اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہ شناخت کسی ایک قالب میں نہیں ڈھلتی۔ یہی تنوع اس شناخت کو مزید منفرد بناتا ہے، اور اسے سمجھنے کے لیے ہمیں اس کے تمام پہلوؤں کو کھلے ذہن سے دیکھنا ہوگا۔
یہ کالم اس حقیقت کو اُجاگر کرتا ہے کہ کوہستانی شناخت نہ صرف مقامی سطح پر اہمیت رکھتی ہے بلکہ عالمی منظرنامے پر بھی اپنی موجودگی کا احساس دلا چکی ہے۔ مختلف شعبوں میں نمایاں شخصیات نے اس شناخت کو اپنے نام کے ذریعے دُنیا کے سامنے پیش کیا، جو اس کی وسعت اور اثر پذیری کا مظہر ہے۔ اس شناخت کو محفوظ رکھنے، اس پر مزید تحقیق کرنے اور اسے علمی سطح پر اُجاگر کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ آنیوالی نسلیں اس تہذیبی ورثے سے جڑی رہیں۔ کوہستانی برادری کی زبانیں، ثقافت اور تاریخ ایک ایسی گونج ہیں جو وقت کے ساتھ مدھم نہیں ہونی چاہئیں، بلکہ تحقیق، مکالمے اور شعور کے ذریعے مزید بلند ہونی چاہئیں۔
Post your comments