class="wp-singular post-template-default single single-post postid-15953 single-format-standard wp-theme-resolution eio-default kp-single-standard elementor-default elementor-kit-7">

پی ٹی آئی اب کیا کرے? تحریر :ظفر محمد خان

 ستمبر کا جلسہ ہو چکا ہے ظاہر ہے پشاور کے قریب ہوا تھا  اور پختون خواہ صوبے کی پوری ابادی کو ازادی سے کے ساتھ جلسے میں شرکت کرنے سے کوئی روک نہیں سکتا تھا جتنا بڑا بھی اجتماع ہوا اس کو نہ تو تاریخی کہا جا سکتا ہے نہ ہی صوبہ کی تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ ایک ہجوم تھا ایک ہنگامہ ارائی تھی اور شاید اگر عمران خان کا پیغام ایا تھا تو وہ یہ ایا تھا کہ جن لوگوں سے عمران خان جیل میں بیٹھے بیزار ہوئے ہیں لیکن ان کو ہٹا بھی نہیں سکتے جیسا کہ امین گنڈا پور ،  ان کی وہاں پر کلاس لی جائے اور کارکنوں کے ذریعے علی محمد خان ، امین گنڈا پور اور دیگر سیاسی رہنماؤں پر جوتے اور بوتلیں پڑوا کر عمران خان نے جیل میں رہتے ہوئے اپنی نہ صرف بیزارگی کا اظہار کیا بلکہ اس بے چینی کا بھی اظہار کیا کہ وہ چاہتے ہوئے بھی امین گنڈا پور کو وزارت اعلی سے نہیں ہٹا سکتے پی ٹی ائی کو اپنے اتحادی تلاش کرنے پڑیں گے اس کے بغیر پی ٹی ائی اہستہ اہستہ بلبلوں کی طرح بیٹھ جائے گی پاکستان کی تاریخ میں کوئی بھی سیاسی جماعت اپنے طور پر پاکستان میں کوئی ہلچل پیدا نہیں کر سکی ہے چاہے وہ پیپلز پارٹی ہو چاہے وہ جماعت اسلامی ہو چاہے وہ مسلم ۔لیگ ہو ہر جماعت کو کوئی تحریک پیدا کرنے کے لیے سیاسی جماعتوں کی حمایت چاہیے ہوتی ہے
پی ٹی ائی کی سیاسی جماعت ہونے میں بھی ایک شک ہے کہ وہ ایک کلٹ قسم کی پارٹی ہے جس میں اپنے لیڈر کے اوپر جتنی تعداد میں بھی عوام اعتماد کرتے ہیں وہ ایسا اعتماد ہے کہ وہ اس کے خلاف کچھ سننا نہیں چاہتے اور یہ وہ منفی شہرت ہے جس کی وجہ سے یہ پارٹی پاکستان کے باقی طبقوں میں بدنام  ہوتی جا رہی ہے
پی ٹی ائی اگر چاہے تو پنجاب میں بھی جلسے کر سکتی ہے لیکن اسے معلوم ہے کہ پنجاب میں لوگ اس کی کال پر باہر نہیں ائیں گے کیونکہ پنجاب میں جس طرح کا ہمارے اینکر اور جس طرح کا ہمارا ایک سٹیریو ٹائپ پروپگنڈا ہے کہ پی ٹی ائی کو بہت بڑی اکثریت حاصل ہے ایسا ہے نہیں
پچھلے عام انتخابات میں پنجاب میں پی ٹی ائی دوسری بڑی پارٹی بن کے سامنے ائی تھی اور اس کے فارم 47 والے نعرے کی کو پذیرائی اس لیے حاصل نہیں ہو سکی کہ اگر کسی حلقے میں دھاندلی ہوئی ہوتی تو اگلے دن وہاں کی عوام پولنگ اسٹیشنوں کو گھیر لیتے لیکن ایسا ہوا نہیں تھا سب کو پتہ تھا شام تک جو نتائج ائے اس کے بعد پی ٹی ائی کو دوسری بڑی پارٹی تو کہا جا سکتا ہے لیکن پنجاب میں کھلی اکثریت حاصل نہیں ہے اب ایسے میں پنجاب میں اس کے جلسے بھی ناکام ہو رہے ہیں جلسے جب ناکام ہو رہے ہوں اور اس کا الزام اگر حکومت کی ایجنسیوں پہ لگایا جائے تو اس کا سدباب  ایک عام ہڑتال سے کیا جا سکتا ہے
 پی ٹی ائی میں اگر طاقت برقرار ہے اور وہ سمجھتی ہے کہ اس کو عوام کی حمایت حاصل ہے تو وہ پورے پاکستان میں ہڑتال کی اپیل کر سکتی ہے ہڑتال ایک ایسا ٹول ہے جس کے ذریعے بزنس مین  طالب علم  مزدور مڈل کلاس  عوامی حلقے  اپنے احتجاج کو خاموشی سے ریکارڈ کراتے ہیں اور حکومتیں دیکھتی رہ جاتی ہیں
لیکن کیا پی ٹی ائی میں اتنی طاقت ہے اس کا جواب نفی میں ہے پی ٹی ائی سوائے صوبہ پختون خواہ میں خود اپنی دکانیں بند کرا کے اس دن تعطیل کا اعلان کر کے اور کچھ نہیں کر سکتی اور کسی بھی جماعت کو اپنی طاقت دکھانے کے لیے ہڑتال کرانا ایک اہم فیصلہ ہوتا ہے پی ٹی ائی اس سے انتہائی خوفزدہ ہے اس کا ثبوت یہ ہے کہ وہ ہونے والے ضمنی  انتخابات میں بھی بائیکاٹ کر کے بیٹھ گئی ہے کیونکہ اس کو پتہ ہے کہ اگر انتخابات ہوئے تو کسی علاقے کی سیٹ بھی دوبارہ حاصل نہیں کر سکے گی حالانکہ وہ انہی کے ارکان کی وجہ سے خالی ہوئی ہیں
پی ٹی ائی صرف عمران خان کی شہرت کے ذریعے نہیں چل سکتی کیونکہ عمران خان جس قدر شہرت رکھتے ہیں اس سے زیادہ وہ ناقابل قبول  بھی ہیں
لہذا پی ٹی ائی کو چاہیے کہ وہ اپنے مطالبات کے لیے دوسری سیاسی جماعتوں سے گفت وشنید  شروع کرے حکومت کو بھی انگیج کرے اور اس طرح اس کو تھوڑا سا عوام کے سامنے کھل کے انے کا موقع ملے گا اور ہو سکتا ہے اس طرح مستقبل میں عمران خان کو رہائی نصیب ہو سکے
جہاں تک دوبارہ اقتدار میں انا ہے تو اس کے لیے اگلے الیکشن کا انتظار کرنا ہوگا اور اگر صاف ستھری سیاست کی گئی تو کسی نہ کسی اتحاد کے ذریعے کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی موقع تو ضرور بن سکتا ہے

About the author /


Related Articles

Post your comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Newsletter