امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے رہنما غیر متزلزل ہیں، سیز فائر میں امریکا نے بہت مدد کی۔ پاکستان اور بھارت کی تجارت میں مدد کے لیے بھی تیار ہیں۔
امریکی صدر ٹرمپ نے وئٹ ہاؤس میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امریکا نے سیزفائر میں دونوں ممالک کی بہت مدد کی، امریکا پاک بھارت تجارت میں مدد کے لیے بھی تیار ہے۔ جلد پاکستان سے بات کروں گا۔صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ پاکستان اور بھارت پر بات چیت کےلیے دباؤ ڈالا، شروع میں سیز فائر کا کہا تو دونوں ممالک پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں تھے، ہم نے جوہری تنازع رکوایا یہ بہت بری جوہری جنگ ہوسکتی تھی، اس میں لاکھوں لوگوں کی جانیں جا سکتی تھیں، مجھے بہت فخر ہے کہ ہم نے جوہری تنازع رُکوایا۔دریں اثنا قطر سے لگژری طیارہ کے تحفے پرامریکی صدر ٹرمپ نے کہا کہ محکمہ دفاع کو 747 طیارہ کسی معاوضے کے بغیر بطور تحفہ مل رہا ہے۔ انھوں نے کہا یہ طیارہ عارضی طور پر 40 سال پرانے ایئر فورس ون طیارے کی جگہ لے گا۔ امریکی صدر نے کہا کہ یہ ایک بہت ہی عوامی اور شفاف لین دین ہے، بدعنوان ڈیموکریٹس اصرار کر رہے ہیں کہ ہم طیارے کی بھاری قیمت اد اکر رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ڈیموکریٹس عالمی معیار کے ناکام لوگ ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے مسئلہ کشمیر میں ثالثی کی پیش کش پر بھارت کا ردعمل سامنے آ گیا۔
بھارتی خبر ایجنسی کا بھارتی ذرائع کے حوالے سے کہنا ہے کہ بھارت مسئلہ کشمیر پر بات کرنے کے لیے تیار نہیں۔بھارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ اب صرف جو مسئلہ باقی ہے وہ صرف پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر ہے، فوجی کارروائی کے خاتمے کی بات چیت کا واحد ذریعہ ڈی جی ایم او سطح پر بات چیت ہے، اس میں کسی تیسرے ملک یا فریق کو شامل نہیں کیا جائے گا۔بھارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ بھارت پاکستان کے ڈی جی ایم او کے علاوہ کسی بھی ملک یا فریق سے بات چیت کے لیے تیار نہیں ہو گا۔واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے ساتھ مل کر کام کروں گا اور دیکھوں گا کہ کیا مسئلہ کشمیر کا کوئی حل نکل سکتا ہے۔ایک بیان میں ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ کشمیر کے مسئلے کے حل تک پہنچنے کے لیے دونوں ملکوں کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے ساتھ تجارت بڑھائیں گے۔پاکستان کے وزیرِ اعظم شہباز رشریف نے امریکی صدر ٹرمپ کے اس بیان کا خیر مقدم کیا ہے۔
امریکا میں قطر کی جانب سے ممکنہ تحفے پر بحث کا آغاز ہوگیا کہ کیا امریکی صدر یہ تحفہ لینے کے مجاز ہیں اور کیا اخلاقی طور پر امریکی صدر کو یہ تحفہ قبول کرنا چاہیے؟
امریکی میڈیا کے مطابق قطری حکومت کی جانب سے امریکی صدر کو عارضی استعمال کےلیے ایک خصوصی طیارہ تحفے میں دینے کا اعلان کیا، جس پر امریکی وزارتِ دفاع اور قطری وزارت دفاع کے وکلا کے درمیان بحث کا آغاز ہوگیا۔گو کہ اس حوالے سے حتمی فیصلہ نہیں ہوسکا، تاہم اخلاقی امور کے وکلاء اس عمل کو غیرآئینی قرار اور معاوضے کی شق کی خلاف ورزی قرار دے رہے ہیں۔اس حوالے سے امریکی صدر نے اپنی سوشل میڈیا پوسٹ پر تصدیق کرتے ہوئے ان لوگوں پر تنقید کی جو کہہ رہے ہیں کہ واشنگٹن کو اس 747 بوئنگ طیارے کی قیمت اداکرنی چاہیے جو امریکا کو بغیر کسی قیمت کے ایئر فورس ون کے طو ر پر وصول کرے گا۔ایک امریکی نیوز چینل نے دعویٰ کیا کہ صدر ٹرمپ کی انتظامیہ نے قطری شاہی خاندان کی جانب سے ملنے والے تحفے کو قبول کرنے کا فیصلہ کرلیا۔دوسری جانب وائٹ ہاؤس ترجمان کی جانب سے اس حوالے سے ابھی تک کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔
ایئر فورس ون کیا ہے؟
دنیا میں ہر مملکت کے سربراہان کی آمد و رفت کے لیے خصوصی طیاروں کا استعمال کیا جاتا ہے، یہ طیارے بنیادی طور پر ایک فضائی دفتر کی طرح کام کرتے ہیں اور متعلقہ سربراہانِ مملکت کےلیے اِن طیاروں میں ہر وہ آسائش اور سہولت موجود ہوتی ہے جس کی کبھی بھی اُن کو ضرورت پڑ سکتی ہے، امریکا میں یہ طیارے ایئر فورس ون کہلاتے ہیں۔امریکی صدر کے زیرِ استعمال طیاروں کی تعداد 2 ہوتی ہے، یہ دنیا بھر میں دوروں پر امریکی صدر، صدر کے اہلِ خانہ اور صدر کے خاص عملے کی سواری کے طور پر استعمال ہوتے ہیںپاکستان میں ایسے خصوصی طیاروں کو پاک ون کہا جاتا ہے اور دنیا بھر کی طرح یہاں بھی فضائیہ کا عملہ ہی ان کی دیکھ بھال اور پرواز کی ذمہ داریاں ادا کرتا ہے۔
Post your comments