ایران کے خلاف اسرائیل کے حملوں میں امریکاکی شمولیت کے بعد ایران کے پاسداران انقلاب (آئی آرجی سی )نے واضح کیاہےکہ ایران کا جواب ایسا ہوگا جس کا دشمن نے سوچا بھی نہ ہوگا‘ انہوں نے انکشاف کیا ہے کہ حملے میں ملوث امریکی طیاروں کے مقام کی نشاندہی کرلی گئی ہے اور خطے میں اس کے فوجی اڈوں کی نگرانی کی جارہی ہے‘ پاسداران کا کہناہے کہ مشرق وسطیٰ میں موجود امریکی اڈے اس کے لئے طاقت کا ذریعہ نہیں بلکہ اس کی کمزوری ہیں‘ ایرانی وزیرخارجہ عباس عراقچی کا کہنا ہے کہ ہم مذاکرات اور سفارت کاری کررہے تھے مگر واشنگٹن نے نتیجے کا انتظارکئے بغیر پہلے اسرائیل کے ذریعے حملہ کرایا اور پھر خود ایران پر حملہ کردیا۔دفاعی ماہرین نے جنگ کو بتایا ہے کہ ایران جس کے وزیر خارجہ عباس عراقچی آج ماسکو پہنچ کر روسی صدر پوتن سے ملاقات کررہے ہیں اپنے دوستوں سے مشاورت کرنے کے بعد جوابی کارروائی کرے گا جس سے دس روز سے جاری اس جنگ کی ہولناکی میں زبردست اضافہ ہوسکتا ہے‘ پاسداران نے کہا ہےکہ ایرانی سرزمین کی خلاف ورزی کرنے والوں کو اب سخت رد عمل کا انتظار کرنا چاہئے جو ان کے لئے پچھتاوے کا باعث بنے گا۔ اس دوران امریکا ، ایران میں حکمرانوں کو تبدیل کرنے کے ارادے سے پیچھے ہٹ گیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہےکہ امریکا کا موقف ہے کہ اس کی جنگ ایران کے خلاف نہیں ہے بلکہ اس کا نشانہ ایٹمی صلاحیت سے دوسری جانب ایران نے زور دیکر کہا ہےکہ امریکہ نے اس کے ساتھ سفارتکاری کا فریب کیا ہے دو ہفتے قبل تک اس نے ایران کے ساتھ اومان میں مذاکرات شروع کر رکھے تھے اور ساٹھ دن کی مہلت دیکر اسرائیل کا حملہ کرادیا ‘اب جبکہ جنیوا میں یورپی ممالک سے مذاکرات ہو رہے تھے تیسرے ہی دن حملہ آور ہوگیا ہے‘ایرانی وزیرخارجہ عباس عراقچی کا کہنا تھا کہ ان حالات میںحب امریکہ سفارتکاری کی آڑمیں جارحیت کے لئے موقع پر پیدا کرتا ہے آئندہ کیونکہ سفارتکاری کا دروازہ کھولا جاسکتا ہے‘امریکا ایک طرف سفارتکاری کا ڈھونگ رچاتا ہے تو دوسری طرف جارحیت کی راہ نکال لیتا ہے‘ مبصرین نے یاد دلایا ہے کہ بارہ سال قبل صدر روحانی نے امریکی صدر بارک اوباما کے ساتھ ٹیلی فون پر گفتگو کرے تہران اور واشنگٹن کے درمیان پرامن بقائے باہمی کی بنیاد رکھنے کی کوشش کی تھی جس کے بعد 2015 میں امریکا کی شمولیت سے دنیا کے اہم ممالک جن میں یورپ کے ممالک بھی شامل تھے مشترکہ جامع پلان آف ایکشن بناکر ایران سے مفاہمت ہوگئی تھی اس میں روس اور چین بھی شریک تھے ہر چند ایران کے بیلسٹک میزائلوں کے پروگرام پر تحفظات تھے تاہم اس پلان آف ایکشن پر عمل ہوتا رہا جس سے ایران کے لئے یورینیم کی افزودگی کی قابل قبول شرح کو یقینی بنالیا گیا تھا۔ مبصرین نے انکشاف کیا ہے کہ اس ایکشن پلاٹ کوڈونلڈ ٹرمپ کی پہلی حکومت میں اس وقت سبوتاژ کیا گیا جب امریکا نے ایرانی شہریوں پر سفری پابندی عائد کردیں اور تن تنہا ایکشن پلان سے دستبردار ہوگیا ۔اس کے جواب میں ایران نے کہاکہ وہ یورنیم کی پابندیوں سے آزاد ہوکر افزودگی شروع کردے گا ‘دونوں کے درمیان مخالفانہ بیان بازی بڑھتی چلی گئی۔ نوبت یہاں تک آگئی کہ صدر ٹرمپ نے کہا کہ انہیں قتل کردیا جائے تو ایران کو مکمل طور پر تباہ کردیا جائے ۔ بعد ازاں بائیڈن حکومت نے ایکشن پلان میں واپس آنے کی کوشش بھی کی تاہم وہ کامیاب نہ ہوسکی ۔ مبصرین کن کہنا ہے کہ ٹرمپ کی دوسری صدارت میں آغاز کار سے ہی ایران کے خلاف امریکی انتظامیہ کی کارروائیوں میں سختی شروع ہوگئی۔ امریکی نائب صدر جے ڈی وینس نے اتوار کے حملوں کے بعد چین سے کہا ہےکہ وہ ایران کو آبنائے ہرمز بند کرنے سے بعض رکھے۔ پتہ چلا ہے کہ ایران نے اپنی تینوں ایٹمی تنصیبات سے ’’ضروری سازو سامان‘‘تین قبل ہی ہٹا لیا تھا جنہیں امریکی طیاروں نے نشانہ بنایا ہے وہاں متعین عملے کی تعداد میں ہی غیر معمولی تخفیف کردی گئی تھی یہی وجہ ہےکہ ایران کا دعویٰ ہے کہ امریکہ کو اپنی جارحیت کے مقاصد حاصل نہیں ہوسکے۔
عراق میں ایران نواز ملیشیا کی جانب سے امریکی اڈوں پر حملے کے اشارے دیے گئے ہیں۔
نیو یارک ٹائمز کے مطابق عراقی حکومت کی جانب سے حملے سے روکنے کی کوششیں جاری ہیں۔نیویارک ٹائمز کا کہنا ہے کہ ایران نواز ملیشیا ممکنہ طور پر شام میں بھی امریکی اڈوں پر حملہ کر سکتی ہے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں چین اور روس نے ایران پر امریکی حملے کی شدید مذمت کی ہے۔
چینی مندوب برائے اقوام متحدہ نے ایران پر امریکی حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ تنازع کے فریقین، خاص طور پر اسرائیل کو فوری جنگ بندی پر پہنچنا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ ایران کے جوہری مسئلے سے نمٹنے کے لیے سفارت کاری ختم نہیں ہوئی، اب بھی تنازع کے پرامن حل کی امید ہے۔اجلاس سے خطاب میں روسی مندوب نے کہا کہ ایران پر امریکا کی غیر ذمےدارانہ، خطرناک اور اشتعال انگیز کارروائی کی مذمت کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ امریکا نے ایک نیا پنڈورا بکس کھول دیا ہے، کوئی نہیں جانتا کہ اس سے کیا نئی تباہی اور تکلیف آئے گی، امریکا کو واضح طور پر سفارتکاری میں کوئی دلچسپی نہیں۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا ہے کہ خطے کے عوام مزید تباہی کے متحمل نہیں ہوسکتے، جنگ روک دی جائے۔
ایران کی صورتحال پر اقوام متحدہ سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایران کے جوہری پروگرام پر سنجیدہ مذاکرات کئے جائیں۔ان کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ پرامن حل کے لیے کسی بھی کوشش کی حمایت کے لیے تیار ہے۔اس موقع پر عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی کے سربراہ رافیل گروسی نے کہا کہ امریکی حملے کے بعد فردو کے مقام پر بڑے بڑے گڑھے دیکھے گئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایران کو مذاکرات کی میز پر آنا چاہیے، امن کو موقع نہ دیا گیا تو مزید تباہی ہوگی۔
سلامتی کونسل میں ایرانی مندوب سعید ایراوانی نے کہا ہے کہ ایران پر امریکی حملے کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔
سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ امریکی حملے کا جواب دینے کے وقت اور نوعیت کا فیصلہ ایرانی افواج کریں گی۔انہوں نے کہا کہ ایران پر امریکا کے تمام الزامات بے بنیاد ہیں، امریکا کے الزامات کے سیاسی محرکات ہیں، ان کی کوئی قانونی بنیاد نہیں۔ایرانی مندوب سعید ایراوانی کا کہنا ہے کہ عدم پھیلاؤ کے معاہدے کو سیاسی ہتھیار میں تبدیل کر دیا گیا، اسے جارحیت اور غیر قانونی اقدام کے طور پر استعمال کیا گیا۔
روسی نیشنل سیکیورٹی کونسل کے نائب سربراہ دیمتری میدیدیوو کا کہنا ہے کہ کئی ممالک ایران کو ایٹمی ہتھیار دینے کے لیے تیار ہیں۔
اپنے بیان میں دیمتری میدویدیوو نے کہا کہ امریکی حملوں کا الٹا اثر ہوا ہے، معاملہ یورینیئم کی افزودگی سے بڑھ کر ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری کی جانب جائے گا۔اس سے قبل روس نے ایران پر امریکی حملوں کی شدید مذمت کی۔روسی وزارتِ خارجہ کا کہنا تھا کہ ایک خود مختار ریاست پر میزائل اور بم حملے کرنا ایک غیر ذمے دارانہ فیصلہ ہے، اس فیصلے کی کوئی بھی دلیل پیش کی جائے، یہ بین الاقوامی قانون، یواین چارٹر اور یواین سلامتی کونسل کی قراردادوں کی صریح خلاف ورزی ہے۔روسی وزارتِ خارجہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہم جارحیت کے خاتمے اور حالات کو سیاسی اور سفارتی راستے پر واپس لانے کی کوششوں میں اضافے کا مطالبہ کرتے ہیں۔
Post your comments