ترکستان ایک ایسا نام ہے جو آج کے جدید نقشوں پر شاذ و نادر ہی دکھائی دیتا ہے، مگر تاریخ کے اوراق میں یہ خطہ کئی صدیوں تک تہذیب، تجارت، علم، سیاست اور عسکری قوت کا مرکز رہا ہے۔ ترکستان کوئی باقاعدہ ملک نہیں تھا، بلکہ ایک وسیع جغرافیائی اور ثقافتی علاقہ تھا جسے عمومی طور پر ترک نسل کے لوگوں کا وطن سمجھا جاتا تھا۔ اس خطے کا نام ہی ’’ترکوں کی سرزمین‘‘ کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے، مگر اس سادہ تعبیر کے پیچھے ایک پیچیدہ اور متنوع حقیقت چھپی ہوئی ہے۔
ترکستان میں آباد تمام قبائل کو ترک کہلایا جاتا تھا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان قبائل کا نسب ایک دوسرے سے مختلف تھا۔ کچھ قبیلے نسلاً وسطی ایشیا کے خانہ بدوش تھے، کچھ منگول النسل، کچھ ایرانی الاصل، تو کچھ عربوں سے اختلاط یافتہ تھے۔ مگر چونکہ وہ ترکستان کے جغرافیے اور تہذیبی وحدت کے تحت پروان چڑھے، اس لیے ان سب کی شناخت ایک مشترکہ ’’ترک‘‘ شناخت میں ضم ہو گئی۔ یوں ترک ایک نسل سے زیادہ ایک تہذیبی اور لسانی شناخت بن گئی، جس میں زبان، ثقافت، طرزِ زندگی، اور جغرافیہ نے زیادہ اہم کردار ادا کیا۔
تاریخی طور پر ترکستان کو مشرقی اور مغربی حصوں میں تقسیم کیا جاتا تھا۔ مشرقی ترکستان وہ علاقہ تھا جو آج چین کے صوبے سنکیانگ کی صورت میں موجود ہے، جہاں آج بھی ایغور مسلمان آباد ہیں۔ یہ علاقہ صدیوں تک ترکوں کا مذہبی، ثقافتی اور تجارتی مرکز رہا۔ مغربی ترکستان میں موجودہ قازقستان، ازبکستان، ترکمانستان، کرغزستان اور تاجکستان شامل تھے، جہاں مختلف ترک قبائل آباد تھے جنہیں ترکستان کی وسیع تر شناخت نے ایک لڑی میں پرو رکھا تھا۔
ترکستان کا سب سے شاندار دور وہ تھا جب اسلام اس خطے میں داخل ہوا۔ آٹھویں صدی میں قتیبہ بن مسلم کی فتوحات نے اس خطے میں اسلامی تعلیمات کی بنیاد رکھی۔ جلد ہی ترک قبائل کی اکثریت نے اسلام قبول کر لیا، اور یہی وہ لمحہ تھا جب ترکستان صرف جغرافیائی نہیں بلکہ ایک روحانی و تہذیبی وحدت بھی بن گیا۔ اسلامی اثرات نے ترکستان کو ایک نئی شناخت دی جو نسل سے بالاتر تھی۔
اسلامی دور میں ترکستان نے ایسے علماء ، محدثین، سائنسدان اور فاتح پیدا کیے جنہوں نے دُنیا بھر میں اپنا نام پیدا کیا۔ بخارا، سمرقند، تاشقند، کاشغر، اور یارکند جیسے شہر اسلامی دنیا کے علمی اور تجارتی مراکز بن گئے۔ یہاں کے مدارس، کتب خانے، خانقاہیں اور بازار، سب ایک ایسے علمی و روحانی ماحول کی عکاسی کرتے تھے جو دُنیا میں کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔
امام بخاری، امام ترمذی، البیرونی، ابو نصر فارابی، بو علی سینا، خواجہ بہاء الدین نقشبندی، احمد یسوی، ملا علی قاری، سید علی ہمدانی، شیخ احمد کشغری، بو داو?د سجستانی، ابن خرداذبہ، علاء الدین عطار، یوسف ہمدانی، ابن ماجہ، ابو حامد غزالی، سید جلال بخاری سمیت بہت سی نامور شخصیات ترکستان کی سرزمین سے وابستہ تھیں۔ پاکستان کے خیبرپختونخواہ میں وارد ہونے والی سولہویں اور سترہویں صدی کی معروف دینی و روحانی شخصیات جیسے سید علی ترمذی، اخوند درویزہ، محمد اکبر شاہ المعروف اخوند سالاک اور سید کستیر گل المعروف کاکا صاحب کے آباؤ اجداد بھی ترکستان سے ہی تعلق رکھتے تھے۔
اُنیسویں صدی کے اختتام اور بیسویں صدی کے آغاز میں ترکستان کی وحدت مختلف سلطنتوں کے اثر میں آ کر بکھرنے لگی۔ روسی سلطنت نے مغربی ترکستان کے بیشتر حصے پر قبضہ کیا، اور بعد میں سویت نظام کے تحت ان علاقوں کو الگ الگ شناختوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ ازبک، ترکمان، قازق، کرغیز اور تاجک نام سے نئی قومیتیں اُبھریں جنہیں علیحدہ ریاستی ڈھانچے دیئے گئے۔
دُوسری طرف چین نے مشرقی ترکستان کو سنکیانگ کے نام سے اپنی حدود میں شامل کر لیا اور اسے ایک خودمختار علاقہ قرار دیا۔ اسی طرح ایران کے شمال مشرقی علاقے جیسے مشہد، نیشاپور، سبزوار، بجنورد، کوچان وغیرہ، افغانستان کے شمالی صوبے جیسے بلخ، جوزجان، فاریاب اور بدخشاں، اور روس کی جنوبی ریاستیں تاتارستان، بشکورتستان وغیرہ بھی وہ علاقے ہیں جو کبھی ترکستان کا حصہ رہے ہیں۔ ان علاقوں میں آج بھی ترک نژاد اقوام آباد ہیں جو اپنی زبان، رسم و رواج اور ثقافت کے ذریعے ترکستانی ورثے کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔
موجودہ دُنیا میں ترکستان کے تاریخی خطے کئی خودمختار ممالک میں تقسیم ہو چکے ہیں۔ ان میں چین، قازقستان، ازبکستان، ترکمانستان، کرغزستان، تاجکستان، افغانستان، ایران اور روس کے کچھ علاقے شامل ہیں۔ اگرچہ ان خطوں کی سیاسی حیثیتیں اب الگ ہو چکی ہیں، مگر ان کی مشترکہ تاریخ، ثقافت اور لسانی وراثت آج بھی ترکستانی وحدت کی گواہی دیتی ہے۔ یہاں کے باشندے خود کو الگ الگ قوموں کے طور پر پہچانتے ہیں، لیکن ان کے اندر ترکستان کے مشترکہ ماضی کی جھلک آج بھی دیکھی جا سکتی ہے۔
ترکستان اب ایک ملک نہیں، ایک خواب ہے۔ ایک ایسا خواب جو کبھی ایک تہذیب، ایک زبان، ایک روحانی رشتہ اور ایک ثقافتی وحدت کی علامت تھا۔ یہ خواب آج مختلف قومیتوں، زبانوں، اور جغرافیائی سرحدوں میں بٹ چکا ہے، مگر اس کی بازگشت ان تمام قوموں کے دلوں میں اب بھی سنائی دیتی ہے جو کسی نہ کسی طور ترکستان سے جڑی ہوئی ہیں۔ ترکستان کی یہ داستان ہمیں یاد دلاتی ہے کہ اصل وحدت نسب میں نہیں، شناخت میں نہیں، بلکہ ان قدروں میں ہے جو قوموں کو جوڑتی ہیں، چاہے وہ کسی بھی نسل یا علاقے سے تعلق رکھتے ہوں۔
Post your comments