class="wp-singular post-template-default single single-post postid-16564 single-format-standard wp-theme-resolution eio-default kp-single-standard elementor-default elementor-kit-7">

ٹی ایل پی بمقابلہ ریاست (کیا ہمیں سیاسی جماعتوں کے خلاف پرتشدد کارروائیوں کی حمایت کرنی چاہیے یا نہیں؟ از ایمان مہر

مشہور ماہرِ عمرانیات میکس ویبر کے مطابق ریاست کی تعریف یہ ہے:

“ریاست وہ جماعت ہے جو ایک مخصوص علاقے کے اندر جسمانی طاقت کے جائز استعمال پر کامیابی سے اجارہ داری قائم کرتی ہے۔”

سادہ الفاظ میں کہا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ صرف ریاست کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی سرحدوں کے اندر قانون و نظم برقرار رکھنے کے لیے طاقت کا استعمال کرے یا اس کی اجازت دے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ حد کہاں کھینچی جائے؟ تشدد کب جائز ہے اور کب نہیں؟

ریاست کو واقعی تشدد کے استعمال پر اجارہ داری حاصل ہے، لیکن اگر یہی ریاست اس طاقت کا استعمال اختلافی آوازوں کو دبانے، اپوزیشن کو خاموش کرنے، یا شہریوں کو مارنے اور اذیت دینے کے لیے کرنے لگے، تو پھر یہ جائز نہیں رہتا۔

لہٰذا، سب سے پہلے یہ طے کرنا ضروری ہے کہ ریاست کب اور کن صورتوں میں طاقت کا استعمال کر سکتی ہے؟

پولیس، فوج اور قانون نافذ کرنے والے ادارے صرف اسی وقت طاقت استعمال کر سکتے ہیں جب وہ امن و امان برقرار رکھنے یا عوامی سلامتی کے تحفظ کے لیے ضروری ہو۔ طاقت کا استعمال ہمیشہ قانونی جواز، جمہوری نگرانی اور آئینی حدود کے اندر ہونا چاہیے۔

اقوامِ متحدہ کے قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کے لیے اسلحہ اور طاقت کے استعمال سے متعلق بنیادی اصول (1990) کے مطابق، طاقت کا استعمال صرف ان صورتوں میں ہونا چاہیے جب:

  • یہ انتہائی ناگزیر ہو۔
  • خطرے کے تناسب سے ہم آہنگ ہو۔
  • اگر احتجاج پُرامن ہو تو طاقت کے استعمال سے مکمل طور پر گریز کیا جائے۔

لہٰذا، ہم یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ پُرامن احتجاج کو ہرگز تشدد سے دبایا نہیں جانا چاہیے۔

اب آتے ہیں ٹی ایل پی پر، کہ آیا یہ واقعی ایک سیاسی جماعت ہے یا کچھ اور؟

اخلاقی طور پر یہ ہمیں کہاں کھڑا ہونا چاہیے؟ کیا ہمیں سیاسی جماعتوں کے خلاف پرتشدد کارروائیوں کی حمایت کرنی چاہیے یا نہیں؟

تحریکِ لبیک پاکستان  ایک مذہبی سیاسی جماعت ہے جو خادم حسین رضوی نے 2015 میں قائم کی۔ یہ جماعت توہینِ رسالت کے قوانین کے دفاع میں انتہائی جارحانہ رویہ رکھتی ہے اور نبی کریم ﷺ کے ناموس سے متعلق معاملات پر سخت گیر مؤقف اپناتی ہے۔ یہ اکثر اسلام آباد اور لاہور میں بڑے پیمانے پر جلسے، دھرنے اور احتجاج کرتی ہے۔

دوسری طرف، ریاستِ پاکستان — یعنی حکومت، فوج اور عدلیہ — ٹی ایل پی کو ایک مذہبی-سیاسی شدت پسند گروہ سمجھتی ہے جو ریاستی اختیار کو چیلنج کرتا ہے اور اکثر عوامی نظم و نسق میں خلل ڈالتا ہے۔ اس کے اقدامات کے نتیجے میں پولیس کے ساتھ جھڑپیں اور قومی زندگی میں رکاوٹیں پیدا ہو چکی ہیں۔

ذیل میں چند مثالیں دی جا رہی ہیں جہاں ٹی ایل پی کے کارکنان کے پرتشدد رویّے واضح طور پر دیکھے گئے:

  • اکتوبر 2021 میں ہزاروں ٹی ایل پی کارکن گوجرانوالہ / مریدکے سے اسلام آباد کی طرف مارچ کر رہے تھے سادھوکے میں پولیس سے جھڑپوں کے دوران کئی پولیس اہلکار ہلاک ہو گئے۔ حکومت کے مطابق، مظاہرین نے جدید ہتھیار، بشمول اے-کے-47، استعمال کیے۔
  • اسی سال لاہور میں بھی ٹی ایل پی کے احتجاج تشدد میں بدل گئے۔ پولیس کے مطابق مظاہرین نے پولیس پر گاڑیاں چڑھائیں، پٹرول بم پھینکے اور پتھراؤ کیا۔ کم از کم تین پولیس اہلکار ہلاک ہونےکی اطلاعات ہیں۔
  • 16 اگست 2023 کو ٹی ایل پی کے حامی ہجوم نے جھنگ کے جڑانوالہ میں مبینہ طور پر 26 عیسائی چرچ جلا دیے۔ یہ حملے ایک توہینِ قرآن کے الزام کے بعد کیے گئے۔ عیسائی گھروں کو لوٹا گیا، بائبل نذرِ آتش کی گئیں، اور سو سے زائد افراد گرفتار کیے گئے۔
  • احمدی برادری کے خلاف بھی ٹی ایل پی کے حامیوں کے حملوں کی رپورٹس موجود ہیں۔ ان میں مساجد کا محاصرہ، میناروں کی مسماری، املاک کی تباہی اور بعض صورتوں میں افراد پر تشدد شامل ہے۔ انٹرنیشنل ہیومن رائٹس کمیٹی  کی ایک رپورٹ کے مطابق، احمدی عبادت گاہیں بند کرائی گئیں اور ان کے نمازیوں کو مجرمانہ مقدمات میں الجھایا گیا۔
  • اپریل 2025 میں کراچی میں احمدی برادری کے ایک فرد لیق چیمہ کو ٹی ایل پی سے وابستہ ہجوم نے احمدی عبادت گاہ کے قریب مظاہرے کے دوران مار ڈالا۔
  • حالیہ دنوں میں اسلام آباد کی طرف مارچ کرتے ہوئے ٹی ایل پی کے مظاہرین نے گاڑیاں جلائیں، فائرنگ کی، پولیس اور رینجرز کو زخمی کیا۔ ایک ایس ایچ او  مریدکے میں فائرنگ سے ہلاک ہوا۔

ایسے شدت پسند گروہوں سے نمٹنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ انہیں آئین کے آرٹیکل 17(2) کے تحت مستقل طور پر کالعدم قرار دیا جائے، جیسے ریاست نے 2002 میں تحریکِ جعفریہ پاکستان  اور سپاہِ صحابہ پاکستان  پر فرقہ وارانہ نفرت، تشدد پر اکسانے اور دہشت گرد سرگرمیوں میں ملوث ہونے پر پابندی عائد کی تھی۔

اس طرح ہم پُرامن اور پرتشدد سیاسی جماعتوں میں واضح فرق کر سکتے ہیں۔

کیونکہ، اگر ریاست پُرامن اور غیر پُرامن تحریکوں پر بلا امتیاز تشدد کرنے لگے، تو یہ اس کی عادت بن جاتی ہے۔

ریاست پھر عوام کی آواز سننا چھوڑ دیتی ہے۔ نتیجتاً عوام اور حکومت کے درمیان عدم اعتماد بڑھتا ہے، سیاسی عدم استحکام پیدا ہوتا ہے، اور ریاست کمزور ہو جاتی ہے۔

یہ غیر جمہوری، مخلوط نظامِ حکومت بار بار بلا امتیاز ہر قسم کے مظاہرین پر طاقت کا استعمال کرکے خود اپنی بنیادیں کھوکھلی کر رہا ہے۔ ایسا طرزِ عمل عوام اور اداروں کے درمیان اعتماد کو ختم کر دیتا ہے۔ اور اگر یہ سلسلہ نہ رکا تو اس کے خطرناک نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔

itsthealpha2003@gmail.com

About the author /


Related Articles

Post your comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Newsletter