class="wp-singular post-template-default single single-post postid-15923 single-format-standard wp-theme-resolution eio-default kp-single-standard elementor-default elementor-kit-7">

چھٹی افغان-مغل جنگ(1667ء – 1678ء) تحریر و تحقیق: نجیم شاہ (تاریخی زاویئے)

مغلیہ سلطنت کی تاریخ میں بہت سے معرکے ایسے ہیں جو صرف میدانِ جنگ میں لڑی گئی جنگوں کی حیثیت سے نہیں بلکہ سیاسی، سماجی اور فوجی پالیسیوں پر دوورس اثرات چھوڑنے والے واقعات کے طور پر دیکھے جانے چاہئیں۔ انہی میں سے ایک معرکہ وہ خونریز اور طویل جنگ تھی جو 1667ء سے 1678ء کے درمیانی عرصے میں افغان قبائل اور مغلیہ سلطنت کے مابین لڑی گئی۔ یہ جنگ اگرچہ تاریخ کے کچھ گوشوں میں جزوی طور پر محفوظ ہے، لیکن ہمارے قومی شعور سے تقریباً محوہو چکی ہے۔ اس کا تذکرہ نہ تو نصابی کتابوں میں ملتا ہے، نہ ہی عوامی سطح پر اس پر گفتگو کی جاتی ہے، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اس جنگ نے مغلیہ سلطنت کو سیاسی، مالی، فوجی اور نفسیاتی لحاظ سے بُری طرح متاثر کیا، اور اس کے اثرات دکن سے لے کر پنجاب تک محسوس کئے گئے۔

یہ امر بھی قابلِ غور ہے کہ 1893ء میں ہونے والے ڈیورنڈ لائن معاہدے سے قبل، موجودہ پاکستان کے پشتون اکثریتی علاقے افغان اثر میں شمار ہوتے تھے۔ چترال، دیر، اور سوات جیسے خطے ثقافتی اور نسلی طور پر افغانستان سے جڑے مانے جاتے تھے۔ جب ان علاقوں سے مغلوں کے خلاف تحریک نے جنم لیا، تو اسے افغان-مغل جنگ کا نام دیا گیا، گو کہ جغرافیائی اعتبار سے یہ مقامات آج پاکستان کا حصہ ہیں۔ یہ جنگ دراصل اس موقع سے جنم لیتی ہے جب مغل سلطنت کی اندرونی خانہ جنگی کے باعث شمال مغربی سرحد پر قائم امن کی دیواریں کمزور ہو چکی تھیں۔ اس انتشار نے یوسف زئی، آفریدی، خٹک، محسود اور دیگر افغان قبائل کو اس امر پر آمادہ کیا کہ وہ مغل علاقوں پر حملہ آور ہوں۔ ان حملوں کی قیادت ابتداء میں بہاکو خان جیسے سرداروں نے کی، جنہیں حضرت اخوند سالاک کی بھرپور مدد اور تعاون حاصل تھا۔

اس جنگ کا آغاز 1667ء میں بہاکو خان اور اخوند سالاک کی جانب سے مغلیہ علاقوں پر حملوں سے ہوا۔ بہاکو خان نے پانچ ہزار جنگجوؤں پر مشتمل ایک منظم فوج تیار کی، جسے اخوند سالاک جیسے روحانی رہنما کی اخلاقی حمایت حاصل تھی۔ ان دونوں کی قیادت میں یوسف زئیوں نے تھاکوٹ کے قریب چھانجل قلعہ پر حملہ کیا اور مغل حمایت یافتہ پکھلی سرکار کو سخت نقصان پہنچایا۔ اُنہوں نے کئی مغل چوکیوں پر حملہ کیا اور انہیں قبضہ میں لے لیا، اور یہاں تک کہ مغلیہ علاقوں کے اندرونی حصوں میں داخل ہونے کا منصوبہ بنایا۔ مغلیہ تواریخ کے مطابق اُنہوں نے وہاں اپنی عملداری قائم کی اور کسانوں سے محصول وصول کیا۔ دوسرے یوسفزئی گروہ بھی دریائے کابل کے کنارے، پشاور کے مغربی حصے اور اٹک کے علاقوں میں مغلیہ علاقوں میں نبرد آزما رہے، جو مغلیہ اقتدار کے لیے ایک غیر معمولی چیلنج بن گیا۔

مغل بادشاہ اورنگزیب نے اس بغاوت کو کچلنے کے لیے فوری اقدامات کیے اور مختلف علاقوں سے فوجی کمک منگوائی۔ کابل سے فوج روانہ کی گئی تاکہ یوسف زئیوں کے قبضہ کیے گئے علاقوں کو واپس حاصل کیا جا سکے۔ مگر جنگ طول پکڑ گئی اور مغل افواج کو دشوار گزار پہاڑی علاقوں، مقامی مزاحمت، اور گوریلا جنگی تکنیکوں کی وجہ سے شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ نہ سازگار زمین میسر آئی، نہ مقامی حمایت، جس نے مغل منصوبوں کو شدید نقصان پہنچایا۔

اس جنگ کا سب سے ہولناک باب وہ تھا جب 1672ء میں دریا خان آفریدی کی قیادت میں افغان قبائل نے خیبر درے کو بند کر دیا اور ایک بڑی مغل فوج پر علی مسجد کے تنگ درے میں حملہ کیا ، جس کے باعث مغل افواج کی رسد اور نقل و حرکت مکمل طور پر متاثر ہوئی۔ اس کارروائی کے نتیجے میں مغل افواج کو تقریباً چالیس ہزار کے لگ بھگ جانی نقصان ہوا اور قیمتی سامان ضائع ہو گیا۔ دریا خان کی قیادت نے افغان مزاحمت کو مزید مضبوط بنایا اور یہ تحریک محض ایک قبائلی جھڑپ نہ رہی بلکہ سلطنتِ مغلیہ کے خلاف باقاعدہ جنگ کی شکل اختیار کر گئی۔

اس نازک صورتحال میں اورنگزیب نے خود جنگ کی نگرانی شروع کی۔ نئی حکمت عملی مرتب کی گئی اور تازہ دم افواج کو میدان میں اتارا گیا۔ تاہم، وہی پرانے مسائل — پہاڑی زمینی رکاوٹیں، سخت موسم، اور عوامی مخالفت — مغل منصوبوں کے لیے مسلسل رکاوٹ بنے رہے۔ افغان قبائل نے اتحاد اور قربانی کی مثال قائم کی، جب کہ مغل افواج کی قیادت میں انتشار اور مہمات کی ناکامی نے سلطنت کو مزید کمزور کر دیا۔ حالات دن بدن افغان مزاحمت کے حق میں جاتے رہے۔

1674ء میں مغل جنرل شجاعت خان کو کراپا پاس پر افغانوں کے خلاف مہم پر روانہ کیا گیا، مگر یہ کوشش بھی بری طرح ناکام ہوئی۔ شجاعت خان کی موت نے مغل افواج کی قیادت میں ایک خلاء پیدا کر دیا، جس کا فائدہ افغانوں نے اُٹھایا۔ اس طویل جنگ نے نہ صرف مغلیہ خزانے کو خالی کیا بلکہ سلطنت کے فوجی نظام اور افسران پر بھی شدید دباؤ ڈالا۔ کئی تجربہ کار افسران اور سپاہی مارے گئے، جس سے فوج کی مجموعی کارکردگی پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔

اگرچہ کچھ علاقوں میں مغل افواج نے عارضی طور پر کنٹرول حاصل کیا، مگر مجموعی طور پر اس جنگ کے نتائج مغلیہ سلطنت کے لیے نقصان دہ رہے۔ اس طویل اور تھکا دینے والی جنگ نے مغل ساکھ کو مجروح کیا اور افغان قبائل کی مزاحمتی قوت کو تسلیم کرنا پڑا۔ واضح ہو گیا کہ صرف عسکری طاقت سے ان علاقوں میں امن قائم نہیں رکھا جا سکتا۔ وہاں کے قبائلی نظام، ثقافتی حساسیت، اور مقامی سیاست کو سمجھ کر ہی کوئی دیرپا حل ممکن ہے۔

چھٹی افغان – مغل جنگ نے برصغیر میں طاقت کے توازن کو تبدیل کرنے کی بنیاد رکھی۔ افغان قبائل ایک مستقل اور مؤثر قوت کے طور پر اُبھرے، جب کہ مغل افواج کی برتری کو زوال کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ جنگ مغلیہ سلطنت کے لیے ایک تنبیہ تھی کہ روایتی حربی پالیسیوں کے بجائے ایک جامع سیاسی و انتظامی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ اورنگزیب کی قیادت میں حاصل شدہ کچھ کامیابیاں وقتی تھیں، جنہوں نے مجموعی تصویر کو تبدیل نہ کیا۔

یہ جنگ مغلیہ سلطنت کے لیے ایک کڑا امتحان ثابت ہوئی، جس کے اثرات صرف افغان سرحدوں تک محدود نہ رہے بلکہ پورے برصغیر میں سلطنت کے استحکام کو متزلزل کیا۔ افغان قبائل کی طاقت میں اضافہ ہوا اور مغل فوج کی حیثیت کمزور پڑ گئی۔ یہ جنگ اس بات کا ثبوت بنی کہ سرحدی علاقوں میں دیرپا امن قائم رکھنے کے لیے طاقت اور حکمت عملی کا متوازن امتزاج ناگزیر ہے، اور نئی سوچ کے بغیر سلطنت کے دور دراز علاقوں پر کنٹرول برقرار رکھنا ممکن نہیں۔

چھٹی افغان – مغل جنگ کی سیاسی و عسکری پیچیدگیاں نہ صرف افغان قبائل کی مزاحمتی قوت کو اُجاگر کرتی ہیں بلکہ مغلیہ سلطنت کی داخلی کمزوریوں اور ناقص حکمت عملی کو بھی نمایاں کرتی ہیں۔ یہ جنگ ایک ایسا تاریخی موڑ تھی، جس نے مغل حکمرانوں کو مجبور کیا کہ وہ اپنے دفاعی انتظامات اور سرحدی پالیسیوں میں بنیادی تبدیلیاں لائیں۔ اس جنگ نے برصغیر کی تاریخ میں ایک نیا زاویہ متعارف کروایا، جو آج بھی تدبر و مطالعہ کا متقاضی ہے۔

About the author /


Related Articles

Post your comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Newsletter