یہاں سب کچھ چل رہا ہے … سیاست بھی، معیشت بھی، عدلیہ بھی اور تماشے بھی۔ لیکن اگر کچھ نہیں چل رہا تو وہ ہے سچ، انصاف اور عام آدمی کی قسمت۔ ستمبر، اکتوبر اور نومبر وہ مہینے ہیں جب اقتدار کی کرسی خود سے سوال کرنے لگتی ہے۔ ہر دروازے کے پیچھے کھسر پھسر شروع ہو جاتی ہے، ہر چہرہ بدحواسی میں لپکتا ہے، اور ہر قدم بے یقینی کے گرداب میں ڈولنے لگتا ہے۔ اِن مہینوں کی ہَوا میں صرف خزاں نہیں ہوتی، کچھ خوابوں کی لاشیں بھی اُڑتی محسوس ہوتی ہیں۔
پاکستان کی سیاست ایک ایسا کھیل بن چکی ہے جس میں اُصول کھلاڑی نہیں، بلکہ رکاوٹ سمجھے جاتے ہیں۔ آئینی ترامیم کا تماشا دیکھ لیجیے … کبھی جمہوریت کے نام پر اِداروں کو کمزور کیا جاتا ہے، کبھی صوبوں کے حقوق پر شب خون مارا جاتا ہے، اور کبھی عدالتی ڈھانچے کو نرغے میں لینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ہر بار وعدے عوام کے ساتھ ہوتے ہیں، اور سودے کسی اور کے ساتھ۔ یہ سب کچھ ایک ایسا اسکرپٹ لگتا ہے جو برسوں سے لکھا جا رہا ہے، صرف کردار بدلتے ہیں۔
تحریک انصاف کے ساتھ جو کچھ ہُوا، وہ نیا نہیں تھا، لیکن اِس کے ردعمل نے سب کو حیران کر دیا۔ عمران خان کے خلاف مقدمے، گرفتاری، میڈیا بلیک آؤٹ … سب کچھ آزمایا گیا، لیکن بیانیہ کمزور ہونے کے بجائے مزید توانا ہو گیا۔ ایک شخص جو قید میں ہے، اُس کی آواز باہر کے وزیروں، مشیروں، اور ترجمانوں پر بھاری پڑ رہی ہے۔ اُس کا ہر جملہ، ہر پیغام، ایک نئے طوفان کی پیش گوئی بن کر گونجتا ہے۔ ایسے بیانیے سادہ کاغذ پر نہیں، تاریخ کے صفحات پر لکھے جاتے ہیں۔
نو مئی کے واقعات کے بعد حکمتِ عملی یہ تھی کہ پارٹی کو دباؤ سے توڑ دیا جائے۔ لیکن ہُوا یہ کہ جو لوگ پارٹی چھوڑ گئے، وہ خود ہی منظر سے غائب ہو گئے۔ تحریک انصاف نے وقتی خاموشی اختیار کی، لیکن اب وہ پھر سے متحرک ہوتی نظر آ رہی ہے، ایک نئے جذبے اور نئے تیور کے ساتھ۔ ضمنی انتخابات کا بائیکاٹ، پارلیمانی کمیٹیوں سے استعفے… یہ سب کسی کمزوری کا اظہار نہیں، بلکہ ایک طویل جنگ کی تیاری ہے جس میں وقت کو ہتھیار بنایا گیا ہے۔
اب ستائیسویں آئینی ترمیم کی گونج سُنا ئی دے رہی ہے، جسے کچھ لوگ ریاستی اصلاحات کا نام دے رہے ہیں۔ لیکن تاریخ یہ بتاتی ہے کہ یہاں ہر ترمیم، ہر ریفارم، ہر حکمتِ عملی کے پیچھے کوئی نیا مفاد پوشیدہ ہوتا ہے۔ اٹھارہویں ترمیم پر نظرثانی ہو یا نئے صوبوں کی تشکیل، این ایف سی ایوارڈ کا ازسرنو حساب ہو یا گورننس کا نیا ماڈل … سب کچھ عوام کے نام پر، لیکن عوام کے بغیر ہو رہا ہے۔ یہ وہی کہانی ہے جس میں کردار وہی رہتے ہیں، صرف اسٹیج تھوڑا سا پینٹ کر دیا جاتا ہے۔
ملک کا دارالخلافہ اِس وقت سیاسی افواہوں کا گڑھ بن چکا ہے۔ عدالتوں سے لے کر ایوانوں تک، ہر جگہ ایک اضطراب، ایک بے چینی چھائی ہوئی ہے۔ اہم تقرریاں، عدالتی فیصلے، اور سیاسی اتحاد … سب کچھ کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ معلوم ہوتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ طوفان واقعی کسی تبدیلی کا آغاز ہے یا محض اقتدار کے کھیل میں مہروں کی نئی چال؟ کیونکہ تاریخ بتاتی ہے کہ یہاں ہر ہلچل کے بعد مایوسی اور ہر نعرے کے بعد خاموشی چھا جاتی ہے۔
اب سوال یہ نہیں کہ کون اقتدار میں آئے گا اور کون جائے گا۔ سوال یہ ہے کہ عوام کب تک اِس کھیل کے خاموش تماشائی بنے رہیں گے؟ کب وہ اپنی قسمت کو ووٹ کی پرچی سے نہیں بلکہ شعور، سوال اور کردار سے بدلنے کا فیصلہ کریں گے؟ جب تک یہ قوم اپنی زبان کو صرف نعرۂ نہیں، سوال بنانا نہیں سیکھے گی، تب تک ہر ستمبر، ہر اکتوبر، اور ہر نومبر … بس ایک اور تماشا ہوں گے۔ اور اِس تماشے میں کردار تو بدلیں گے، مگر انجام وہی رہے گا۔
Post your comments