class="wp-singular post-template-default single single-post postid-15527 single-format-standard wp-theme-resolution eio-default kp-single-standard elementor-default elementor-kit-7">

پچھلے پچاس سال بھٹو کا عروج و زوال. [ پہلی قسط ] ظفر محمد خان

اکیسویں  صدی کا  25واں سال چل رہا ہے یعنی 2025 ۔ اگر پچھلے 50 سالوں پر نظر ڈالی جائے جو سن 1975 سے شروع ہوتے ہیں تو ایک ہنگامہ خیز تصویر سامنے اتی ہے ۔ کوشش کرتے ہیں کہ ان 50 سالوں کو ایک مختصر سے مضمون میں سمیٹنے کی کوشش کریں ۔ 1975 بھٹو صاحب کے پاکستان میں عروج کا دور تھا ایسا لگتا تھا کہ پیپلز پارٹی کو پاکستان میں ایک طویل عرصے تک حکومت کرنے کا لائسنس مل چکا ہے اپوزیشن دب چکی تھی ۔ اپوزیشن کے سب سے بڑے رہنما خان عبدالقیوم خان کو لندن میں سفیر بنا کر بھٹو نے اپوزیشن کو نچوڑ کر رکھ دیا تھا ۔ بیرونی دنیا سے اچھے معاہدے ہو رہے تھے ۔ گلف کے ممالک کو پاکستان سے بڑی تعداد میں ملازمتیں مل رہی تھیں اور لوگوں کا معیار زندگی بہتر ہوتا جا رہا تھا ۔ اسی سال بھٹو صاحب نے پاکستان میں تیل نکل انے کا بھی ایک ڈرامہ رچایا جب قومی اسمبلی کے اندر تیل کا نمونہ اس زمانے کے اپوزیشن لیڈر مفتی محمود کو پیش کیا گیا ۔ اب یہ الگ بات ہے کہ وہ بھی ایک بھٹو صاحب کا صرف کرشمہ  ہی تھا ۔ 1976 میں پیپلز پارٹی کی حکومت اور مضبوط دکھائی دی اسی سال بھٹو نے چین اور امریکہ کے طویل دورے کیے اور ساتھ ساتھ لیاقت اباد میں 1972 کو اردو کی تحریک کے دوران جلائی جانے والی بڑی مارکیٹ کی جگہ ایک بہت بڑی سپر مارکیٹ کا افتتاح  بھی کیا ۔
سپر مارکیٹ کے اس افتتاح کے دن بھٹو صاحب جب ہزاروں کے  اجتماع سے مارکیٹ کے بڑے پلیٹ فارم سے شام کے چھ بجے خطاب کر رہے تھے تو اچانک مجمع کی جانب سے جوتے اچھالنے کا سلسلہ شروع ہو گیا جس کو دیکھ کر بھٹو صاحب نے عصر کی اذان کا بہانہ کر کے تقریر ختم کی اور جلدی سے واپس چلے گئے ۔ شاید یہ ان کے زوال کا پہلا دن تھا لیکن پیپلز پارٹی یہ معاملات سمجھ نہ سکی اور بھٹو صاحب نے دسمبر کے اخر میں قبل از وقت انتخابات کرانے کا اعلان کر دیا ۔ حالانکہ 1973 کے ائین کی نفاز  کے دن کے بعد پانچ سال  1978 میں پورے ہوتے تھے لیکن انہوں نے 1977 میں الیکشن کرانے کا اعلان کر دیا ۔
اعلان ہونے سے تین دن پہلے کراچی میں ڈاؤ میڈیکل کالج میں اسلامی جمیت  طلبہ کی ایک حلف برداری کی تقریب ہوئی جس کی قیادت پروفیسر غفور احمد نے کی اور حکومت مخالف تقاریر کے بعد یہ اجتماع کراچی کے مشہور بزنس علاقے شاہرہ لیاقت پر نکل ایا اور انہوں نے بھٹو کے خلاف بھرپور نعرے بازی کی ۔ یہ پچھلے پانچ سالوں میں پہلی مرتبہ بھٹو کے خلاف اتنی بڑی نعرے بازی تھی ۔
1977 میں بھٹو صاحب نے سات مارچ اور 10 مارچ کو انتخابات کا اعلان کیا تھا انتخابی مہم شروع ہوتے ہی اپوزیشن  کی تمام جماعتیں متحد ہو گئی اور پاکستان قومی اتحاد کے نام سے اپنے اتحاد کا اعلان کیا ۔ اور یوں  نو ستاروں کا پرچم پاکستان کے سیاسی افق پر لہرانے لگا جس میں دائیں بازو کی جماعتوں سے لے کر مذہبی انتہا پسند جماعتیں تک شامل تھیں ۔
انتخابی مہم بہت بھرپور رہی پیپلز پارٹی نے اپنا وزیراعظم اور چاروں صوبائی وزرا  اعلی کو  دھاندی سے بلا مقابلہ منتخب کرا لیا ۔ اس میں سب سے دلچسپ واقعہ سندھ کے وزیراعلی کے بلا مقابلہ  انتخاب کے موقع پر پیش ایا جب یہاں جماعت اسلامی یا قومی اتحاد کے امیدوار مولانا جان محمد عباسی کو کاغذات نامزدگی داخل کرنے سے پہلے ہی اغوا کر لیا گیا اور وہ کاغذات نامزدگی داخل کرنے کے اخری دن کچے کے علاقے سے ننگے بھوکے برامد ہوئے ۔
سات مارچ کو انتخابات ہوئے اور اس میں پیپلز پارٹی کو دو تہائی اکثریت حاصل ہو گئی نتائج کو قومی اتحاد نے مسترد کر دیا کیونکہ ان کے خیال میں نتائج کو راتوں رات تبدیل کیا گیا ہے اور بہت ساری نشستوں پر جہاں پاکستان قمی اتحاد جیت گیا تھا وہاں راتوں رات نتائج تبدیل کیے گئے ۔ اس میں بھی دلچسپ واقعہ ضلع رحیم یار خان میں پیش ایا جہاں صادق اباد کے قومی اسمبلی کے انتخابی حلقے میں رات کو مخدوم زادہ  حسن محمود کی جیتنے کا اعلان ہو گیا تھا اور رات بھر حلوہ پکتا رہا کہ صبح حلوہ پوری بانٹی جائے گی لیکن صبح ٹیلی ویژن پہ نتائج کے اندر مخدوم حسن محمود کو ہروا دیا گیا تھا ۔
یہاں یہ بات ضرور سمجھنے کی ہے کہ اگر اس قسم کی دھاندی ہوتی ہے تو عوام کبھی اس کو برداشت نہیں کرتے اور یہی وجہ تھی کہ اٹھ مارچ کی صبح پورا پاکستان نے احتجاج کے لیے تیار تھا
نو مارچ کو پاکستان میں مکمل ہڑتال کا اعلان کیا گیا اور 10 مارچ کے صوبائی انتخابات کا بائیکاٹ کرنے کا اعلان کیا گیا
نو مارچ کو پورے پاکستان میں  لنڈی کوتل سے لے کے کیماڑی  تک مکمل ہڑتال رہی ایک پہیہ  بھی نہیں چلا ۔ اور ساتھ ہی دس مارچ کو جب صوبائی اسمبلی کے  انتخابات تھے پورے پاکستان میں انتخابی حلقوں میں دھول اڑتی رہی اس طرح پیپلز پارٹی کے تمام صوبائی ممبران منتخب تو ہو گئے لیکن ان کی قانونی حیثیت یہ اخلاقی حیثیت زیرو رہی
لیکن اس پر ہی بس نہیں  چلا پاکستان قومی اتحاد نے ملک گیر احتجاجی  تحریک چلانے کا اعلان کر دیا ۔
پیپلز پارٹی کی حکومت جو دو تہائی اکثریت حاصل کر چکی تھی اس نے زور شور سے حلف اٹھا لیا نیا وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو منتخب کرا دیا
 اور ادھر اپوزیشن نے انتخاب میں دھاندلی کے خلاف تحریک چلانے کی  پوری تیاری کر لی شروع کے دنوں میں 20 مارچ کو کراچی ہے اور حیدراباد میں مکمل کرفیو لگا دیا گیا اسی طرح اہستہ اہستہ پنجاب میں تحریک پہنچی اور نو اپریل کو نیلا گنبد مسجد میں پولیس کی فائرنگ سے 35 افراد شہید ہوئے ۔ یہ اطلاع جیسے ہی پورے پاکستان میں پہنچی 10 اپریل کو پھر مکمل  ہڑتال ہوئی اور اس کے بعد تو ہڑتالوں کا سلسلہ شروع ہو گیا یہاں تک کہ 20 اپریل کو کراچی لاہور اور حیدراباد میں مارشل لا لگا دیا گیا ۔اس دوران پورے پاکستان میں ڈیڑھ سو سے لے کر 200 تک افراد شہید ہو چکے تھے
مارشل لا  توڑنے کی تحریک چلی جس میں سب سے بڑا نقصان لیاقت  اباد میں ہوا جب 20 نوجوانوں کو مارشل لا  توڑنے کی تحریک یعنی جمعہ کی نماز کے بعد جلوس نکالنے  کہ جرم میں اثنا عشری مسجد لیاقت اباد مین روڈ پر گولی مار کر شہید کر دیا گیا ۔ یہ فوج کی جانب سے عوام پر براہ راست گولی چلانے کی ابتدا تھی
تاہم اس کے بعد پورے پاکستان میں ہنگامے مسلسل جاری رہے ہر جمعہ کو ہڑتال ہوتی رہی یہاں تک کہ لاہور میں فوج نے عوام پر گولی چلانے سے انکار کر دیا اور بندوقیں  زمین پر پھینک دی
بھٹو صاحب نے تمام اپوزیشن رہنماؤں کو گرفتار کر لیا تھا ان سے مذاکرات کرتے رہے کرتے رہے اور نئے انتخابات کے معاملے کو ٹالتے رہے ساتھ ساتھ امریکہ پر بھی الزام لگاتے رہے بالکل اس طرح جس طرح عمران خان نے تحریک عدم اعتماد سے پہلے ایک نام نہاد پرچہ لہرایا تھا اسی طرح بھٹو صاحب نے بھی پرچہ لہرایا تا ہم یہ ترکیب بھی کارگر نہیں ہوئی اور پانچ جولائی سن 1977 کو پاکستان میں مارشل لا  کا نفاذ ہو گیا اور جنرل ضیاء الحق نے بساط جمہوریت لپیٹ دی بھٹو صاحب اور اپوزیشن رہنما کو گرفتار کر لیا
اپوزیشن کی جماعتیں جو مسلسل تحریک چلا کے تھک گئی تھیں اب انہوں نے سانس لیا اور ضیا کی حمایت کا اعلان کیا اور ضیا  نے اپنے اپ کو اسلامی جماعتوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے پاکستان میں اسلام نافذ کرنے کا خود ساختہ حکمران تسلیم کر لیا
اس کے بعد بھٹو جن کو بہرحال ایک حد تک عوامی حمایت حاصل تھی پنجاب میں بھی ان کا اثر تھا سندھ تو پورا ان کے ساتھ تھا لیکن ضیاء الحق کے مقاصد کے لیے بھٹو صاحب ایک رکاوٹ تھے لہذا انہیں ایک کلاسکل قتل کے مقدمے میں ملوث کر کے سن 1989 کی اپریل کے ایک گرم دن صبح صبح پھانسی دے دی گئی ۔
اس دوران 90 دن میں انتخابات کرانے کے وعدے کو طویل عرصے تک معطل کر دیا گیا اس سے پہلے ایک مرتبہ انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا گیا لیکن پھر اس کو منسوخ کر دیا گیا ساتھ ساتھ پاکستان قومی اتحاد بھی اپنے وجود کی اہمیت کھو بیٹھا اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گیا جس کی ابتدا جماعت اسلامی نے اس سے نکلنے کے ساتھ کی
1980 کا اغاز بھٹو صاحب کی پھانسی کے بعد ایک ایسے سال کے طور پر سامنے ایا جب ایران میں انقلاب ا چکا تھا اور اسلامی انقلاب دنیا کے لیے ایک خوشگوار منظر پیش کر رہا تھا
( باقی ائندہ )

About the author /


Related Articles

Post your comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Newsletter