class="wp-singular post-template-default single single-post postid-15737 single-format-standard wp-theme-resolution eio-default kp-single-standard elementor-default elementor-kit-7">

پچھلے پچاس سال ضیاء کا خاتمہ اور بے نظیر. ظفر محمد خان

بھٹو کو پھانسی پر پہنچا کر ضیاء الحق نے دیکھا کہ پاکستان میں کوئی اتنا بڑا ری ایکشن سامنے نہیں ایا سندھ کی حد تک احتجاج ہوئے کوئی دن ریل گاڑیوں کی امد و رفت میں گڑبڑ ہوئی نیشنل ہائی وے پہ دھرنے وغیرہ ہوئے لیکن اگلے ایک ہفتے کے اندر پورا پاکستان نارمل ہو چکا تھا ۔
وجہ یہی تھی کہ بھٹو نے اپنے دور اقتدار میں اپوزیشن پر اتنا ظلم کیا تھا کہ اب جب پیپلز پارٹی بظاہر ظلم کا شکار ہوئی تو کوئی ان کی حمایت کرنے پہ تیار نہیں تھا اور پاکستان کی تاریخ ہے کہ  کوئی ایک جماعت کبھی  بھی اتنا بڑا احتجاج ارگنائز نہیں کر سکتی کہ اسے پورے پاکستان پر اثر پڑے جیسا کہ اج کل اپ تحریک انصاف کی صورتحال دیکھ رہے ہیں پچھلے تین سال سے وہ اپوزیشن میں ہے ان کے لیڈر کو دو  سال جیل میں ہو چکے ہیں وہ جیل میں ہیں لیکن پورے پاکستان میں پتہ بھی نہیں ہل رہا ہے کئی مرتبہ خیبر پختون خواہ سے  جلوس لا چکے ہیں اس کے علاوہ ابھی  حال ہی میں اگست کے مہینے میں دو مرتبہ احتجاج کی اپیلیں کی اس کو اخری اپیل کہا پھر ابھی اذانوں کا کوئی سلسلہ شروع کیا لیکن ہر طرف سناٹا ہی رہا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں کوئی ایک جماعت کبھی بھی پورے ملک پاکستان میں ملکیر تحریک چلا نہیں سکتی اور تحریک انصاف کا ساتھ دینے پہ پاکستان کی کوئی جماعت تیار نہیں ہے
خیر تحریک انصاف کے معاملات پر تو جب ہم بات کریں گے اس وقت دیکھیں گے لیکن ضیاء الحق نے 1979 میں پھانسی کے بعد سوچا کہ اب مجھے سیاسی جماعتوں کے ساتھ کچھ بات چیت کرنی چاہیے جو اس کی آلہ کار جماعت اسلامی جیسی نام نہاد اسلام پسند جماعتیں تھیں ان پر ضیا الحق کو اتنا بھروسہ نہ تھا اس لیے اس نے پہلے مرتبہ غیر جماعتی بلدیاتی انتخابات کا اعلان کیا
بلدیاتی انتخابات ہمارا ائین کا حصہ ہیں لیکن بدقسمتی سے بھٹو نے بھی یہ الیکشن نہیں کرائے اور فوجی حکومت کو یہ موقع مل گیا کہ وہ پچھلی حکومتوں کو بد نام  کرنے کے لیے بلدیاتی الیکشن کا اعلان کرے اور ساتھ میں اپنا ترپ کا پتہ غیر جماعتی کھیل دیا تاکہ کسی خاص سیاسی جماعت کی کامیابی سے فوجی حکومت کا مورال  نہ گرے
1979 کے موسم خزاں میں بلدیاتی الیکشن ہوئے جن کا سیاسی جماعتوں نے بظاہر بائیکاٹ کیا لیکن ظاہر ہے کونسلر کی سیٹ بھی چھوڑنے پر کون تیار ہوتا ہے لہذا مختلف جماعتیں مختلف ناموں سے انتخابات میں حصہ لینے کے لیے آ  پہنچی جس میں جماعت اسلامی سر فہرست تھی پیپلز پارٹی نے بھی عوام دوست کا نام استعمال کیا پنجاب میں سیاسی جماعتیں کھل کے سامنے نہیں ائی بلکہ ذات برادری کی بنیاد پر امیدوار سامنے ائے اور معاشرہ بٹتا  چلا گیا ۔
بلدیاتی الیکشن کے بعد کونسلر اور میئر وغیرہ منتخب ہوئے تو ملک میں ایسا لگنے لگا کہ کچھ سیاسی ماحول پیدا ہو گیا ہے اور اب ضیاء الحق نے دوسرا بڑا غیر ائینی اور غیر سیاسی اقدام کیا کہ ایک مجلس شورہ قائم کر لی جو کہ خود ضیاء الحق کی طرف سے نامزد کردہ تھی اور اس کو حیثیت دے دی پاکستان کی قومی اسمبلی کی
۔ ضیاء الحق نے خواجہ صفدر کو اس کا اسپیکر نامزد کیا اور جناب ایک مجلس شورہ وجود میں اگئی جو پاکستان کے ائین کی مالک بن بیٹھی ۔ تاہم لگتا ہے کہ مسلمانوں میں جمہوریت کا ابھی کچھ چلن باقی تھا لہذا یہی مجلس شورہ قرارداد منظور کرنے لگی کہ ملک میں بالغ رائے دہی کی بنیاد پر سیاسی انتخابات ہونے چاہیے
اب ضیاء الحق کے سامنے کوئی راستہ نہ تھا کیونکہ اس کی اپنی بنائی ہوئی مجلس شورہ  اس سے انتخابات کرانے کا مطالبہ کر رہی تھی کسی طرح چار سال رو پیٹ کے کھینچے اور 1985 میں پہلے غیر جماعتی انتخابات کرانے کا اعلان کر دیا گیا ۔ غیر جماعتی کا مطلب ہی یہ تھا کہ انے والی اسمبلی کو ماشاءاللہ حکومت اپنی مرضی سے چلانا چاہتی ہے سیاسی جماعتوں نے پھر انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا کیونکہ کوئی سیاسی جماعت یہ تصور بھی نہیں کر سکتی کہ غیر جماعتی بنیاد پر وہ کسی الیکشن میں حصہ لے سوائے پاکستان کی مذہبی جماعت جماعت اسلامی کے جس کے نمائندوں نے دھڑلوں سے حلف اٹھایا ہے کہ ہمارا کسی سیاسی جماعت سے تعلق نہیں ہے اور انہوں نے ریٹرنگ افیسر کے سامنے جھوٹا حلف نامہ داخل کر کے اپنے کاغذات داخل کرائے جس میں جماعت اسلامی کی مرکزی قیادت بھی شامل تھی سوائے پروفیسر غفور احمد کے
جماعت اسلامی کا خیال تھا غیر جماعتی الیکشن ہے کوئی جماعتیں یا پارٹیاں اپنے نام سے موجود نہیں ہیں تو جماعت اسلامی پاکستان میں ایک بڑی تعداد میں سیٹیں حاصل کر لے گی لیکن جب یہ بلدیاتی انتخابات ہوئے تو اس میں جماعت اسلامی کا حال وہی رہا جو 1970 میں تھا ۔ کراچی میں ازاد مذہبی امیدواروں نے اکثریت حاصل کی سندھ کے اندر پیپلز پارٹی کے بائیکاٹ کی وجہ سے غیر پیپلز پارٹی لیکن سندھی بولنے والی بڑی وڈیرہ شاہی  نے اپنے اپنے نمائندے منتخب کرا لیے ۔ پنجاب میں ذات برادری کی بنیاد پر نمائندے منتخب ہوئے اور ان کو بعد میں حکمران جماعت نے اپنی مسلم لیگ بنا کر سیاسی پلیٹ فارم مہیا کر دیا تاہم اسمبلی میں غیر جماعتی سچویشن ہی تھی اور محمد خان جونیجو  کو وزیراعظم بنا دیا گیا
اس دوران ایران میں انقلاب ا چکا تھا اور افغانستان میں روسی فوج داخل ہو گئی تھی جس کی وجہ سے روس میں افغان جہاد شروع ہو چکا تھا اور امریکہ اس جہاد کا پروردہ تھا ۔ امریکہ نے پاکستان کو اپنا بیس بنایا پاکستان سے مجاہدین کو تیار کیا گیا امریکہ کے صدر ریگن پاکستان ائے انہوں نے مجاہدین کے ساتھ کھڑے ہو کر نعرہ تکبیر تک بلند کیا اور ظاہر ہے امریکہ کے سامنے ایک بہت بڑا چیلنج تھا لہذا پاکستان کو بے دریغ امداد حاصل ہونی شروع ہو گئی اور ہر فوجی حکومت کے لیے یہ ایک نعمت ہوتی ہے
ملک کے عوام بھی امریکی ڈالر انے سے صورتحال بہتر محسوس کر رہے تھے تو لہذا کوئی حکومت کے خلاف سخت ری ایکشن نہیں تھا پیپلز پارٹی اپنے لیڈر کو کھو چکی تھی اب مزید نقصان سے بچنے کے لیے بے نظیر بھٹو جو بھٹو کی بیٹی تھی ان کو پاکستان سے باہر بھیجا گیا تھا لیکن وہی بات ہے کہ سیاسی اور جمہوری کیڑا غیر جماعتی اسمبلی میں بھی تھا اور وہاں سے بھی قرارداد منظور ہوئیں کہ جماعتی بنیاد پہ انتخابات کرائے جائیں سیاسی جماعتوں کو بحال کیا جائے اور پھر پیپلز پارٹی کی لیڈر بے نظیر بھٹو جب 1986 میں وطن واپس ائیں تو ان کا تاریخی استقبال کیا گیا جس کی مثال اج تک نہیں ملتی ۔ سنتے ہیں لاہور کی کوئی سڑک ایسی نہ تھی جس پر لوگوں کے لاکھوں کی تعداد میں اجتماع نہ ہو
پیپلز پارٹی کو ازادی ملی تو باقی جماعتوں نے بھی ازادی حاصل کرنی شروع کر دی اور اہستہ اہستہ کراچی کا نشتر پارک لاہور کا مینار پاکستان سیاسی جلسوں کی اماجگاہ بن گئے اور پیپلز پارٹی کے بعد مسلم لیگ جماعت اسلامی جمعیت علمائے پاکستان تحریک استقلال جمیعت علمائے پاکستان سب نے اپنے جلسے منعقد کرنے شروع کر دیے ۔
اس دوران غیر جماعتی اسمبلی کے وزیراعظم محمد خان جونیجو جو زمانے میں افغان جہاد کے حوالے سے ایک اہم کانفرنس میں پاکستان سے باہر تھے اور ایسا لگ رہا تھا کہ وہ واپس ا کے ضیاء الحق پر اپنا دباؤ ڈالیں گے کہ سیاسی بنیاد پہ انتخابات کیے جائیں تو  تو ضیاء الحق نے ان کے انے سے پہلے ہی اپنے انتخابی اختیار کے تحت اسمبلی توڑ دی اور 90 دن کے اندر غیر جماعتی بنیاد پر دوبارہ انتخابات کرانے کا اعلان کر دیا ۔
یہ انتہائی سنگین بات تھی کہ 1985 میں غیر جماعتی انتخابات کرا کے اب دوبارہ 1988 میں وہی حرکت کی جانے والی تھی لیکن فوجی تانہ شاہی اس بات پر ہرگز تیار نہیں تھی کہ سیاسی جماعتوں کو سیاسی بنیادوں پر انتخاب لڑنے دیے جائیں ، لگ رہا تھا حالات پھر سیاسی جماعتوں کے خلاف ہو جائیں گے لیکن سات یا اٹھ محرم کی ایک شام تھی جب جنرل ضیاء الحق کا طیارہ بہاولپور سے اسلام اباد اتے ہوئے فضا میں پھٹ گیا اور ضیاء الحق کے ساتھ اس کے مربی تقریبا سات اٹھ جنرل اور  امریکی سفیر کو بھی لے ڈوبا ۔
یہ 17 اگست 1988 تھی اور اگلے انتخابات غیر جماعتی بنیاد پر ہونے والے تھے لیکن ضیا کے دنیا سے چلے جانے کے بعد فوجی جنرلوں نے حکومت سنبھالنے کے بجائے غلام اسحاق کو صدر نامزد کیا اور اس کے ساتھ ہی 90 دن میں انتخابات کرانے والے وعدے کو پورا کرنے کا عہد  کیا اور سب سے بڑا کارنامہ یہ کیا کہ 1988 کے انتخابات کو جماعتی بنیاد پر انتخاب کرنے کی اجازت دی
ملک میں صحیح معنی میں لوگوں کی اوازیں نکلنی شروع ہوئیں ایک ازاد فضا ہوئی 11 سال سے جس مارشل لا  یا ڈکٹیٹر  نما حکومت کے اندر عوام کے حقوق کو سلب کیا گیا تھا وہ بحال ہو گئے خوشی کی لہر دوڑ گئی ۔
اس عرصے میں کراچی میں ایم کیو ایم کے نام سے ایک جماعت موجود میں ائی جس نے سندھ کے شہری علاقوں کے ووٹروں کی توجہ اپنی جانب مبصول کرائی 1988 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کو اکثریت حاصل ہوئی تاہم ان کے ان کے مقابلے میں مسلم لیگ جس کے سربراہ ضیاء الحق کے پروردہ نواز شریف تھے اس کو کچھ کم سیٹیں ملی تاہم ایم کیو ایم نے کھل کر پیپلز پارٹی کی حمایت کا اعلان کیا جس کے پاس تقریبا 20 سیٹیں تھیں لہذا حکومت کا پلڑا پیپلز پارٹی کے حق میں گیا بے نظیر بھٹو نے پاکستان کی اور دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم ہونے کی حیثیت سے حلف اٹھایا

About the author /


Related Articles

Post your comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Newsletter