class="post-template-default single single-post postid-5475 single-format-standard kp-single-standard elementor-default elementor-kit-7">

شیخ حسینہ کے زوال کی وجوہات: ضد، غرور اور ایک جماعتی آمریت

بنگلادیش پر ساڑھے 15 سال حکومت کرنے کے بعد شیخ حسینہ کو ’آمر‘ بن کر رخصت ہونا پڑا۔ طالب علموں اور عوامی مظاہروں کے دوران ان کی حکومت کے خاتمے کی ایک وجہ ضد، تکبر اور حد سے زیادہ اعتماد کو دیکھا جا رہا ہے۔شیخ حسینہ واجد ون پارٹی رول کی بنیاد پر حکمرانی کر رہی تھیں مگر طلبہ کے ساتھ ساتھ مغرب کو بھی دشمن بنا کر وہ آخری مرحلے پر تقریباً تنہا ہو چکی تھیں۔ شیخ حسینہ کو عوامی تحریک کا سامنا کرتے ہوئے ملک سے اقتدار چھوڑ کر بھاگنا پڑا۔ شیخ حسینہ کا استعفیٰ اور ملک چھوڑنا گزشتہ روز یعنی پیر کو چند گھنٹوں کے اندر اندر ہوا۔عوامی لیگ کی صدر شیخ حسینہ نے پیر کی سہ پہر سے پہلے وزارت عظمیٰ کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ ایک بنگلادیشی اخبار پروتھومالو نے کئی حکومتی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ وہ استعفیٰ دینے سے قبل دوپہر میں قوم سے خطاب کرنا چاہتی تھیں مگر انہیں وہ موقع اور وقت نہیں دیا گیا۔ شیخ حسینہ دوپہر ڈھائی بجے کے قریب ایک فوجی ہیلی کاپٹر میں بھارت کے لیے فرار ہو گئیں۔ اس موقع پر ان کی چھوٹی بہن شیخ ریحانہ ان کے ساتھ تھیں۔

مضبوط پوزیشن سے استعفے تک:

بنگلادیشی اخبار کے مطابق سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ اصلاحات کے مطالبے کے لیے 36 روز قبل شروع ہونے والی طلبہ کی تحریک حکومت گرانے کی تحریک میں تبدیل ہونے کے بعد بھی شیخ حسینہ کی حکومت اپنے موقف کو مضبوط مانتی رہی۔اگرچہ گزشتہ اتوار کو بھی عوامی لیگ، چھاتر لیگ، جوبو لیگ اور دیگر وابستہ تنظیموں نے اپنی طاقت دکھا کر طلبہ تحریک کو روکنے کی کوشش کی لیکن اس کے نتیجے میں ملک بھر میں ہونے والے پرتشدد مظاہروں میں تقریباً 100 افراد کی جانیں گئیں۔ اس صورتحال میں بھی شیخ حسینہ کی حکومت زور زور سے جبر کی بات کرتی رہی۔شیخ حسینہ نے اتوار کی شام سے رات دیر تک اپنی حکومت کے قریبی وزراء اور عہدیداروں کے ساتھ کئی ملاقاتیں کیں۔ شیخ حسینہ کے قریبی کئی رہنماؤں نے بتایا ہے کہ اتوار کو حکومت پر دباؤ بڑھتا رہا لیکن وہ سمجھتے رہے کہ حالات ان کے قابو میں ہوں گے۔ لیکن پیر کی صبح انہیں احساس ہوا کہ ان کا وقت ختم ہو گیا ہے شیخ حسینہ کو اقتدار چھوڑنے کا فیصلہ کرنا پڑا۔

اس صورتحال کی وجہ؟

جب طلباء پرامن احتجاج کر رہے تھے تو شیخ حسینہ نے 14 جولائی کو ایک پریس کانفرنس میں طلباء کے منطقی مطالبات کو نظر انداز کر دیا اور انہیں ’رضاکار‘ کہہ کر مخاطب کیا۔ اخبار کے مطابق اس سے شیخ حسینہ کی ضد اور تکبر کا پتہ چلتا ہے۔ اس رویے پر طلبہ مزید ناراض ہوئے اور تحریک زور پکڑ گئی۔ اس تحریک کو دبانے کےلیے لا اینڈ آرڈر فورسز کی جانب سے طاقت کے استعمال کی وجہ سے 17 جولائی سے چند دنوں میں ملک بھر میں 200 سے زائد جانیں چلی گئیں۔ فوج کے ذریعے کرفیو نافذ کیا گیا تاہم طلبہ نے حکومت کا تختہ الٹنے کےلیے ایک مرحلہ وار تحریک شروع کر دی۔

عوامی لیگ کی تنہائی:

شیخ حسینہ نے اپنی طویل حکمرانی کے دوران سب کو ناراض کر دیا۔ ان کی حکومت کی مختلف سطحوں پر بدعنوانی، منی لانڈرنگ اور معاشی جمود نے لوگوں میں غصہ پیدا کیا اور سیاسی نقطہ نظر سے عوامی لیگ کی قیادت میں 14 جماعتی اتحاد سے باہر باقی تمام جماعتیں حکومت مخالف پوزیشن پر چلی گئیں۔ نتیجتاً شیخ حسینہ سیاسی طور پر تنہا ہو گئیں،  یہ طلبہ کی تحریک میں بھی واضح ہو گیا۔دوسری طرف جغرافیائی سیاست میں شیخ حسینہ کی حکومت کا انحصار بھارت پر تھا اور وہ مسلسل تین متنازع انتخابات میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوئیں۔ اگرچہ شیخ حسینہ واجد کی حکومت چین کے ساتھ بھی تعلقات برقرار رکھے ہوئے تھی مگر گزشتہ جولائی میں شیخ حسینہ نے دو دن کے لیے چین کا دورہ کیا تاہم دورے کے اچھے نتائج نہیں نکلے۔دوسری جانب ان کی حکومت کے امریکا کے ساتھ تعلقات کافی عرصے سے کشیدہ تھے۔ مختلف اوقات میں شیخ حسینہ اور ان کے رہنماؤں نے امریکا پر تنقید کی۔ امریکا کے ساتھ تعلقات میں تناؤ بھی جنوری میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات کے دوران بڑھ گیا۔شیخ حسینہ اور عوامی لیگ نے طلبہ کی تحریک کے خلاف اقدامات اور ان کی بات نہ مان کر ملک کے عوام اور طلبہ کو اپنا مخالف بنا دیا۔اب شیخ حسینہ ملک سے فرار ہو چکی ہیں۔ عوامی لیگ کے بعض رہنماؤں کا خیال ہے کہ شیخ حسینہ نے ملک سے بھاگ کر اپنی سیاسی کامیابیوں کو تہس نہس کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے بنگلادیش میں عوامی لیگ کے وجود کو بھی خطرے میں ڈال دیا۔

About the author /


Related Articles

Post your comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Newsletter