تحریک انصاف نے پاکستان کی سیاست میں ایک نئی فضا پیدا کی۔ یہ وہ جماعت تھی جس نے تبدیلی کا نعرۂ لگایا، نوجوانوں کو
متحرک کیا اور عوام میں یہ اُمید پیدا کی کہ شاید روایتی سیاست سے ہٹ کر کچھ بہتر ممکن ہے۔ عمران خان کی شخصیت نے
عوامی سطح پر ایک مضبوط تاثر قائم کیا، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس تحریک کو اندرونی طور پر ایسے چیلنجز کا سامنا
ہوا جنہیں بروقت نہ سنبھالا گیا، نہ سمجھا گیا۔
آج جب پارٹی ایک مشکل سیاسی فضا سے گزر رہی ہے، تو یہ وقت ہے کہ جوش کی جگہ ہوش کو، نعرے کی جگہ تدبر کو، اور
تنقید کی جگہ اصلاح کو دیا جائے۔ تحریک انصاف کو اب محض مقبولیت پر انحصار نہیں کرنا چاہیے، بلکہ خود کو ایک ایسی
جماعت میں ڈھالنا ہوگا جو ادارہ جاتی سطح پر مضبوط ہو، سیاسی فہم رکھتی ہو، اور قومی معاملات پر سنجیدہ مؤقف اختیار کرنے
کی صلاحیت بھی۔
گزشتہ چند سالوں میں پی ٹی آئی کے گرد جو سوشل میڈیا کلچر پیدا ہوا، اُس نے فائدے سے زیادہ نقصان پہنچایا۔ چند یوٹیوبرز اور
خود ساختہ حمایتیوں نے بغیر کسی ذمہ داری کے جماعت کی نمائندگی شروع کر دی۔ ان افراد نے ذاتی شہرت یا مالی فائدے کی
خاطر جذباتی، سنسنی خیز اور غیر مصدقہ بیانات دیے جنہیں بعض اوقات پارٹی مؤقف سمجھا جانے لگا۔ نتیجتاً پارٹی کا بیانیہ غیر
واضح ہوتا گیا اور عوام کے ساتھ ساتھ اداروں میں بھی غلط فہمیاں پیدا ہوئیں۔
لیکن مسئلہ صرف باہر سے نہیں، اندر سے بھی ہے۔ پی ٹی آئی کے اندر وہ مشاورتی روایت، جو کسی بھی سیاسی جماعت کا بنیادی
ستون ہونی چاہیے، کمزور ہو چکی ہے۔ فیصلے محدود دائرے میں کیے جاتے ہیں، اور اختلاف رائے کو شاذ و نادر ہی جگہ دی
جاتی ہے۔ سیاسی قیادت کا اصل کمال صرف بیانیہ بنانے یا جلسے کرنے میں نہیں ہوتا، بلکہ یہ تب سامنے آتا ہے جب وہ مختلف آرا
ء کو سنے، اپنی ٹیم کو بااختیار بنائے اور اجتماعی فیصلے کرے۔
آج تحریک انصاف کے پاس کئی ایسے رہنما موجود ہیں جن کا تجربہ اور حکمت عملی جماعت کو نئی راہ پر ڈال سکتی ہے۔ بیرسٹر
گوہر علی خان، جنہیں پارٹی کا چیئرمین نامزد کیا گیا، وہ سنجیدہ مزاج، مہذب لہجہ اور قانونی و سیاسی شعور رکھتے ہیں۔ اگر اُنہیں
مکمل اختیارات دے کر فیصلہ سازی میں شامل کیا جائے تو وہ اسٹیبلشمنٹ اور ریاستی اداروں کے ساتھ ایک مثبت رابطے کا ذریعہ
بن سکتے ہیں۔ اسی طرح شاہ محمود قریشی اور پرویز الٰہی جیسے افراد بھی وہ سیاسی توازن فراہم کر سکتے ہیں جو آج کے حالات
میں اشد ضروری ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کو اب تنظیمی ڈھانچے پر ازسرِنو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ پارٹی کی صفوں میں شامل باصلاحیت
نوجوان، پیشہ ور افراد اور خواتین کو آگے لانا ہوگا۔ ایسے افراد جو صرف جذباتی نعروں کے بجائے پالیسی سازی اور ادارہ جاتی
کام میں مہارت رکھتے ہوں۔ سیاست کے میدان میں وہی جماعتیں دیرپا ثابت ہوتی ہیں جو قیادت پر نہیں، نظام پر یقین رکھتی ہیں۔
اس وقت عمران خان کے لیے سب سے بڑی آزمائش یہ ہے کہ وہ اپنی سیاسی وراثت کو ایک شخصی تحریک کے بجائے ایک ادارہ
بنائیں۔ یہ تب ہی ممکن ہوگا جب وہ اپنی ٹیم کو اختیار دیں، اختلاف کو جگہ دیں، اور جماعت کو مشاورت کے اُصولوں پر استوار
کریں۔ اگر یہ اقدامات نہ کیے گئے تو جذباتی جوش اور وقتی نعروں کی بنیاد پر آگے بڑھنا شاید ممکن نہ رہے۔
اب وقت آ چکا ہے کہ تحریک انصاف اپنی سمت درست کرے۔ وہ تنظیمی بلوغت دکھائے، سیاسی تلخیوں کی جگہ مکالمے کو فروغ
دے، اور سوشل میڈیا کی سطحی لڑائیوں سے نکل کر قومی سطح کی سنجیدہ گفتگو کا حصہ بنے۔ اگر پارٹی نے اس موقع پر خود کو
بہتر بنانے کا فیصلہ کیا تو اس کا سیاسی مستقبل تابناک ہو سکتا ہے۔ بصورت دیگر، وہی چہرے، وہی شور، اور وہی تکرار اسے
بتدریج ایک بند گلی کی طرف لے جائے گی، جہاں سے واپسی مشکل ہو گی۔
Post your comments