ہم نے 1947ء کو آزادی کا دن سمجھا، لیکن درحقیقت وہ دن تھا جب ہم نے کرپشن کے میدان میں قدم رکھا۔ تب سے لے کر آج تک، ہم نے ہر شعبے کو اس کھیل کا حصہ بنایا۔ سیاست، بیوروکریسی، عدلیہ، تعلیم، صحت، مذہب، میڈیا، کھیل، ثقافت —کوئی شعبہ ایسا نہیں بچا جسے ہم نے کرپشن سے پاک چھوڑا ہو۔ ہم نے اُصولوں کو دفن کیا، ضمیر کو گروی رکھا، اور میرٹ کو ذبح کیا۔ ہم نے ہر ادارے کو لوٹ مار کا اڈہ بنایا، ہر دفتر کو رشوت کا بازار، اور ہر افسر کو سوداگر۔ ہم نے ایمانداری کو مذاق، دیانت کو جرم، اور سچائی کو بے وقوفی بنا دیا۔ ہم نے ہر دیوار پر یہ لکھ دیا: یہاں صرف وہی کامیاب ہے جو ضمیر بیچنے پر آمادہ ہو۔
کرکٹ میں تو کبھی کبھی ہار بھی ہو جاتی ہے، لیکن کرپشن میں نہیں۔ یہاں ہر میچ فکسڈ ہوتا ہے، ہر کھلاڑی خریدا جاتا ہے، ہر امپائر بکا ہوتا ہے، اور ہر تماشائی بے بس۔ یہاں کوئی نو بال نہیں، کوئی وائڈ نہیں، کوئی آؤٹ نہیں۔ یہاں ہر شاٹ چھکا ہے، ہر گیند وکٹ ہے، ہر فاؤل جائز ہے۔ یہاں کھیلنے والا ہمیشہ جیتتا ہے، اور دیکھنے والا ہمیشہ ہارتا ہے۔ یہاں کوئی ریویو نہیں، کوئی اپیل نہیں، کوئی انصاف نہیں۔ صرف ایک ہی اُصول ہے: جو جتنا بڑا چور، وہ اتنا ہی بڑا ہیرو۔ اور جو جتنا ایماندار، وہ اتنا ہی معتوب، ناکام اور بے وقوف۔ ہم نے کھیل کے اُصول بدل دیئے، اور اب ہمیں اُصولوں سے نفرت ہے۔
ہم نے کرپشن کو اِتنا خوبصورت بنا دیا ہے کہ اب یہ ہمیں بدصورت نہیں لگتی۔ ہم نے اسے اتنا عام کر دیا ہے کہ اب یہ ہمیں غیر معمولی نہیں لگتی۔ ہم نے اسے اتنا جائز بنا دیا ہے کہ اب یہ ہمیں ناجائز نہیں لگتی۔ ہم نے اسے اتنا گہرا کر دیا ہے کہ اب یہ ہمیں سطحی نہیں لگتی۔ ہم نے اسے اتنا پھیلایا ہے کہ اب یہ ہمیں محدود نہیں لگتی۔ ہم نے اسے اتنا مہذب بنا دیا ہے کہ اب یہ ہمیں جاہلانہ نہیں لگتی۔ ہم نے اسے اتنا مذہبی بنا دیا ہے کہ اب یہ ہمیں گناہ نہیں لگتی۔ ہم نے اسے اتنا قومی بنا دیا ہے کہ اب یہ ہمیں غیراخلاقی نہیں لگتی۔ ہم نے کرپشن کو ایسا لباس پہنا دیا ہے کہ اب یہ ہمیں عزت کا نشان لگتی ہے۔
ہمارے بچے اسکولوں میں کرپشن سیکھتے ہیں، ہمارے نوجوان یونیورسٹیوں میں کرپشن کے تھیسس لکھتے ہیں، ہمارے بزرگ مسجدوں میں کرپشن کی دعائیں مانگتے ہیں، ہمارے علما کرپشن پر فتویٰ دیتے ہیں، ہمارے سیاستدان کرپشن پر منشور بناتے ہیں، ہمارے صحافی کرپشن پر کالم لکھتے ہیں، اور ہمارے فنکار کرپشن پر فلمیں بناتے ہیں۔ ہم نے کرپشن کو اتنا رومانوی بنا دیا ہے کہ اب یہ ہمیں عشق لگتی ہے۔ ہم نے اسے اتنا معتبر بنا دیا ہے کہ اب یہ ہمیں بے عزتی نہیں لگتی۔ ہم نے اسے اتنا ترقی یافتہ بنا دیا ہے کہ اب یہ ہمیں پسماندگی نہیں لگتی۔ ہم نے اسے اتنا فخریہ بنا دیا ہے کہ اب یہ ہمیں شرمندگی نہیں لگتی۔ ہم نے اسے اتنا گہرا دفن کیا ہے کہ اب ضمیر کی کوئی آواز سنائی نہیں دیتی۔
کرکٹ میں تو کھلاڑی ریٹائر ہو جاتے ہیں، لیکن کرپشن میں نہیں۔ یہاں کھلاڑی مرنے کے بعد بھی کھیلتے ہیں، ان کے نام پر اسکیمیں بنتی ہیں، ان کے وارث کھیل کو جاری رکھتے ہیں، اور ان کے مزاروں پر کھیل کی دعائیں مانگی جاتی ہیں۔ یہاں کوئی ان فٹ نہیں ہوتا، کوئی ڈراپ نہیں ہوتا، کوئی بینچ پر نہیں بیٹھتا۔ یہاں ہر کھلاڑی کپتان ہے، ہر کپتان کوچ ہے، اور ہر کوچ چیف سلیکٹر ہے۔ یہاں ہر چال کامیاب، ہر دھوکہ قابلِ تعریف، اور ہر فراڈ قابلِ تقلید ہے۔ یہاں ہر جرم فن ہے، ہر جعلسازی ہنر ہے، اور ہر لوٹ مار ترقی کا زینہ۔ یہاں ہر کامیابی کا راز صرف ایک ہے: ’’بے شرمی‘‘۔
تو جناب، کرکٹ کی باتیں چھوڑیں، اصل کھیل پر نظر ڈالیں۔ وہ کھیل جس میں نہ کوئی اُصول ہے، نہ کوئی ضابطہ، نہ کوئی اخلاقیات۔ وہ کھیل جس میں ہر شاٹ چھکا ہے، ہر گیند وکٹ ہے، ہر کھلاڑی ہیرو ہے۔ وہ کھیل جس میں ہم 1947ء سے مسلسل میدان مار رہے ہیں، اور دُنیا کی کوئی طاقت ہمیں شکست نہیں دے سکی۔ یہی وہ کھیل ہے جس نے ہمیں برباد کیا، ہمیں رسوا کیا، ہمیں بے توقیر کیا۔ یہی وہ کھیل ہے جس نے ہماری نسلوں کو ضمیر فروش بنایا، ہماری سوچ کو زنگ آلود کیا، اور ہمارے خوابوں کو نوکریوں، پلاٹوں اور ٹھیکوں میں تول دیا۔ یہی وہ کھیل ہے جس نے ہمیں ترقی کے ہر میدان سے باہر پھینک دیا، اور ہم خوش ہیں کہ ہم اب بھی جیت رہے ہیں۔
تو اب سوال یہ نہیں کہ ہمارا قومی کھیل کیا ہے، سوال یہ ہے کہ ہم اس کھیل سے باہر نکلنا بھی چاہتے ہیں یا نہیں۔ کرکٹ ہمیں وقتی خوشی دیتا ہے، کرپشن ہمیں دائمی ذلت۔ ہم ہر ورلڈ کپ ہار جاتے ہیں، مگر کرپشن کے ہر سیزن میں فاتح رہتے ہیں۔ جب تک ہم اس کھیل کو کھیلتے رہیں گے، ہم ترقی کے کسی میدان میں داخل نہیں ہو سکیں گے۔ قومی کھیل کا فیصلہ ہو چکا ہے — بس اب یہ طے کرنا باقی ہے کہ ہم قوم بننا چاہتے ہیں یا صرف کھلاڑی۔ ہم اگر واقعی زندہ قوم ہیں، تو ہمیں یہ کھیل بند کرنا ہوگا، ورنہ تاریخ ہمیں صرف ایک عبرت کے طور پر یاد رکھے گی۔
Post your comments