class="wp-singular post-template-default single single-post postid-14359 single-format-standard wp-theme-resolution eio-default kp-single-standard elementor-default elementor-kit-7">

گردے: فیل ہونے کے عالمی چیمپئن! تحریر: نجیم شاہ

کیا کبھی آپ نے غور کیا ہے کہ ہمارے گردے زندگی میں کبھی پاس نہیں ہوتے؟ نہ اسکول، نہ امتحان، نہ صحت کے ٹیسٹ میں۔ ہمیشہ ہی فیل ہو جاتے ہیں۔ کیا یہ کوئی دھندہ ہے یا گردوں کی کوئی خاص ’’فیلنگ‘‘؟ کہیں یہ جان بوجھ کر اتنے نالائق تو نہیں کہ بس اپنے کام سے چشم پوشی کر کے ہمیں پریشان کریں؟

یہ گردے وہ ملازم ہیں جو نہ کبھی وقت پر آتے ہیں، نہ کام پر لگتے ہیں، اور اگر کبھی دکھائی دے بھی جائیں تو بس ’’میں کر رہا ہوں، آپ تھوڑا انتظار کریں‘‘ کہہ کر بہانے بناتے ہیں۔ تھوڑی سی نمک داری، پانی کی کمی یا میٹھا ذرا زیادہ ہوا، فوراً ہڑتال۔ بندہ سوچتا ہے کہ کہیں یہ گردے نہیں، کوئی مزے دار کام چھوڑ کر بیٹھے ہوئے نخرے کر رہے ہوں۔

جب گردے فیل ہو جاتے ہیں تو کچن میں ایسی سخت گیر پالیسیاں نافذ ہو جاتی ہیں جیسے ملک میں لاک ڈاؤن لگا دیا گیا ہو۔ نمک کا بحران، گوشت پر پابندی، اور پانی کی مقدار ایسی بڑھ جاتی ہے جیسے ہم بحری جہاز پر سوار ہوں! بیوی روزانہ پوچھتی ہے: ’’نمک ڈالا؟‘‘ گویا نمک کی مقدار زندگی کا سب سے بڑا مسئلہ ہو گیا ہو۔

ڈاکٹر حضرات کہتے ہیں ’’آپ کے گردے جواب دے گئے ہیں‘‘ — اس جملے میں کتنی تلخی اور ناکامی چھپی ہوتی ہے، بس یہی جملہ سن کر بندہ پوری زندگی کا حساب کتاب شروع کر دیتا ہے کہ کون سی غلطی کی، کون سا سالن زیادہ نمکین تھا یا چائے میں چینی زیادہ تھی!

اس کے بعد شروع ہوتا ہے ’’ڈائلیسس‘‘ کا ایک نیا باب  —  وہ مشین جو انسان کے خون کو صاف کرنے کا بہانہ کر کے جیب کو بھی خالی کر دیتی ہے۔ ہفتے میں تین بار مشین کے پاس جانا ایسے لگتا ہے جیسے بندہ نہ جسمانی صفائی کر رہا ہو بلکہ اپنی جیب کی صفائی کروا رہا ہو۔

محلے کی پھپھو اور تایا بھی اِس حالت میں ٹوٹکے لے کر آتے ہیں: ’’گھیکوار کا جوس پینا، نیم کے پتوں کی چائے بنانا، اور اگر ممکن ہو تو دودھ میں زعفران ڈال کر پینا!‘‘ یعنی گردے کے علاج کا پورا پیکیج، جس میں طبی سہولت نہیں، صرف دیسی جادوگری شامل ہوتی ہے۔

اگر آپ کے گردے ابھی تک کام کر رہے ہیں تو خدا کا شکر ادا کریں، اُنہیں پانی پلائیں، نمک کم کریں، اور کبھی کبھی نرم لہجے میں بولیں: ’’میرے پیارے گردو، تم سے زندگی ہے، پاس ہو جاؤ، ورنہ سالن تو پھر بھی کھانا پڑے گا!‘‘

ورنہ وہ دن دور نہیں جب گردے چپ ہو جائیں گے، مرغن غذائیں بشمول بریانی یا  گوشت کھانے کا مزہ چلا جائے گا، اور بس ڈاکٹر کے انتظار میں زندگی بیت جائے گی۔ اِس لیے گردوں سے سمجھوتہ کریں، ورنہ گردے بھی ایسا ’’فیل‘‘ کر دینگے کہ پھر زندگی ’ری ری‘‘ ہوتی رہے گی

About the author /


Related Articles

Post your comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Newsletter