پاکستان میں جب بھی شدید بارشیں یا سیلاب آتے ہیں تو ایک روایتی بیانیہ سامنے آتا ہے کہ “بھارت نے پانی چھوڑ دیا” جس کے باعث نقصان ہوا۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارت خود بھی ان دنوں بارشوں اور سیلابی کیفیت سے متاثر ہوتا ہے۔ دریاؤں کا بہاؤ فطری طور پر دونوں طرف اثر ڈالتا ہے اور جب بارشیں شدید ہوں تو پانی کا اخراج کسی ایک ملک کے ہاتھ میں نہیں رہتا۔
ہمارا اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے پچھلی کئی دہائیوں میں آبی ذخائر (ڈیمز) بنانے پر سنجیدہ توجہ نہیں دی۔ تربیلا اور منگلا ڈیم کے بعد کسی بڑے ذخیرے پر کام نہیں کیا گیا، حالانکہ ماہرین اور انجینئرز بار بار خبردار کرتے رہے کہ اگر نئے ڈیم نہ بنائے گئے تو ہم نہ صرف پانی کی کمی کا شکار ہوں گے بلکہ سیلابی تباہ کاریوں سے بھی بچ نہیں پائیں گے۔
ہر سال بارشوں کے موسم میں دیہات، کھیت اور شہر زیرِ آب آ جاتے ہیں۔ہزاروں افراد بے گھر ہوتے ہیں اور اربوں روپے کا نقصان قومی خزانے پر پڑتا ہے۔
کاشتکار اپنی فصلوں سے محروم ہو جاتے ہیں جس سے ملکی معیشت متاثر ہوتی ہے۔بنیادی ڈھانچے (سڑکیں، پل، اسکول، اسپتال) تباہ ہو جاتے ہیں۔اسکی کچھ وجوہات ہیں ، مثلا
1. پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کی کمی ہے۔ہمارے پاس موجود ڈیمز کی استعداد آبادی اور ضرورت کے حساب سے ناکافی ہے۔
2. سیاسی عدم اتفاق کی بنا پر ڈیم کے منصوبے اکثر صوبائی یا سیاسی تنازعات کی نذر ہو جاتے ہیں۔
3. قلیل المدتی سوچ: حکمران زیادہ تر فوری منصوبوں پر توجہ دیتے ہیں جن سے ووٹ حاصل ہوں، مگر ڈیمز جیسے بڑے منصوبوں پر سرمایہ اور وقت زیادہ لگتا ہے۔
4. یہ قدرتی وسائل کا ضیاع ہے اور پاکستان میں ہر سال اربوں کیوبک میٹر پانی سمندر میں جا کر ضائع ہو جاتا ہے۔اسکا حل اور عملی اقدامات میں یہ ہے کہ
1. نئے ڈیمز کی فوری تعمیر ضروری ہےکالا باغ ڈیم، بھاشا ڈیم اور دیگر منصوبوں پر عملی کام شروع کیا جائے۔
2. پالیسی میں تسلسل قائم نہیں رہنا چاہیئے، حکومتیں بدلنے سے منصوبے رُکنے نہیں چاہئیں۔ قومی مفاد کے منصوبوں پر سب کی اتفاق رائے ہونی چاہیے۔ جبکہ ہمارے ہاں ایسا نہیں ہوتا۔
3. قدرتی آفات سے بچاؤ کا نظام جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے سیلاب کی پیشگی اطلاع، حفاظتی بند اور نکاسی کا بہتر انتظام کیا جائے۔
4. عوامی شعور اور عوام میں بیداری کے حوالے سے قوم کو بتایا جائے کہ ڈیمز صرف بجلی کے لیے نہیں بلکہ سیلابی پانی ذخیرہ کرنے اور زرعی زمینوں کو بچانے کے لیے بھی ضروری ہیں۔
5. بین الاقوامی تعاون کے سلسلہ میں پانی کے انتظام اور ڈیم کی ٹیکنالوجی میں ترقی یافتہ ممالک سے مدد لی جائے۔
اگر ہم نے اب بھی ڈیمز کی تعمیر پر سنجیدگی سے توجہ نہ دی تو آئندہ کے سیلاب پہلے سے زیادہ تباہ کن ثابت ہوں گے۔ یہ معاملہ کسی ایک صوبے یا حکومت کا نہیں بلکہ پورے پاکستان کے مستقبل کا ہے۔ ہمارے حکمرانوں کو الزام تراشی سے نکل کر عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔ ورنہ پانی کی یہ دولت جو ہمیں زندگی دے سکتی ہے، وہی ہمارے لیے تباہی کا سامان بنتی رہے گی۔
Post your comments