پی ٹی آئی کی جانب سےچوبیس نومبرکو اسلام آباد میں احتجاج اور دھرنے کی کال سے نمٹنے کیلئے وفاقی حکومت نے اپنی حکمت عملی بنا لی ہے۔
وفاقی حکومت نے امن و امان کی صورتحال کو بہتر انداز سے ہینڈل کرنے کیلئے اسلام آباد میں رینجرز اوراضافی ایف سی تعینات کرنےکی تیاریاں شروع کردی ہیں-اسلام آباد پولیس نے 22نومبر سے رینجرز اور فرنٹیئر کانسٹیبلری کے نو ہزار اہلکاروں کی خدمات مانگ لی گئی ہیں۔جبکہ ڈسٹرکٹ مجسٹر یٹ اسلام اآ باد نے اسلام اآ باد میں دفعہ 144نافذ کردی ہے جسکے تحت دھرنا یا اجتماع کی اجازت نہیں ہوگی ۔ حکومتی ذرائع کے مطا بق وفاقی حکومت نے پی ٹی آئی کےاحتجاج کیلئے سیکورٹی کےسخت انتظامات کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اسلام آباد پولیس نے رینجرز اور ایف سی کے 9 ہزار اہلکاروں کی خدمات مکمل اینٹی رائٹ کیٹس کے ساتھ مانگی ہیں-ذرائع کے مطابق وفاقی وزارت داخلہ نے رینجرز اور فرنٹیئر کانسٹیبلری کی تعیناتی کیلئے اقدامات شروع کردیئے ہیں۔اس سلسلے میں وزارت داخلہ نےمتعلقہ اداروں سے رجوع کرنےکا فیصلہ کیا ہے۔
پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے 24 نومبر کے احتجاج کے معاملے پر ہونے والے اجلاس میں پنجاب کے رہنماؤں کو نظر انداز کر دیا گیا۔
ذرائع کے مطابق علی امین گنڈاپور نے حماد اظہر اور میاں اسلم اقبال کو پنجاب سے متعلق بات نہیں کرنے دی۔ارکان کا کہنا ہے کہ پنجاب میں احتجاج سے متعلق پلاننگ پر بات ہی نہیں کی گئی۔پی ٹی آئی کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ کارکن جمع کرنے اور اسلام آباد لے جانے میں بھی مشکلات ہیں، احتجاج سے متعلق پنجاب کے رہنماؤں سے مشاورت کی جاتی تو بہتر ہوتا۔پی ٹی آئی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ پنجاب میں کوئی ٹرانسپورٹر گاڑی دینے کو تیار نہیں ہے۔ہزار اضافی اہلکاروں کی تعیناتی کی درخواست کی ہے۔
اسلام آباد میں احتجاج میں شامل شرپسندوں کے پاسپورٹ و شناختی کارڈ منسوخ کرنے پر غور شروع کردیا گیا ہے۔
وفاق میں تمام سرکاری اور اہم عمارتوں کی سیکیورٹی کیلئے سخت حفاظتی اقدامات اور جڑواں شہروں میں سیکیورٹی کیلئے بھاری نفری تعینات کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ذرائع وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سمیت دیگر شہروں میں افغان مہاجرین کیمپوں کی جیو فنسنگ شروع کردی گئی، احتجاج میں شامل شرپسند افراد کے پاسپورٹ، شناختی کارڈ منسوخ کرنے اور سم بلاک کرنے کے معاملے بھی زیر غور ہیں۔ذرائع نے بتایا کہ شرپسندی میں ملوث افراد کیخلاف سخت ترین قانونی کارروائی کا فیصلہ کیا گیا ہے، دہشت گردی کے ممکنہ خطرات سے نمنٹے کیلئے مشکوک مقامات کی نگرانی شروع کردی گئی ہے۔
بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کی بہن علیمہ خان نے تصدیق کی ہے کہ بانی نے علی امین گنڈاپور اور بیرسٹر گوہر علی خان کو مذاکرات کی اجازت دی ہے۔
اڈیالہ جیل راولپنڈی کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے علیمہ خان کا کہنا تھا کہ آج بانی پی ٹی آئی سے طویل ملاقات ہوئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ بانی نے علی امین گنڈاپور اور بیرسٹر گوہر علی خان کو مذاکرات کی اجازت دی ہے، بانی پی ٹی آئی نے دونوں رہنماؤں کو اپنے مطالبات پر مذاکرات کی اجازت دی ہے۔ انکا کہنا تھا کہ بانی پی ٹی آئی نے کہا ’دونوں رہنماؤں نے مذاکرات کی اجازت مانگی ہے۔‘علیمہ خان نے بتایا کہ بانی پی ٹی آئی نے مزید کہا، ’24 نومبر پاکستان کے لیے اہم دن ہے۔ بانی پی ٹی آئی نے عوام سے کہا کہ 8 فروری کی طرح 24 نومبر کو بھی نکلیں، بانی نے کہا ہمارا احتجاج پرُامن ہوگا۔‘علیمہ خان نے کہا بانی پی ٹی آئی نے مینڈیٹ کی واپسی کیلئے مذاکرات کا کہا ہے۔ کارکنوں، رہنماؤں کی رہائی اور جمہوریت کی بحالی کیلئے مذاکرات کا کہا ہے۔ علیمہ خان کا کہنا تھا کہ بانی نے کہا، ’ڈاکٹر یاسمین راشد جیسی خواتین نظریات پر کھڑی ہیں۔ عمر سرفراز چیمہ بیماری کے باوجود اپنے مؤقف پر کھڑے ہیں۔‘انہوں نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی نے جمعرات تک کا وقت دیا ہے۔ چوری شدہ مینڈیٹ واپس ہوتا ہے تو 24 نومبر کا احتجاج جشن میں تبدیل ہوجائے گا۔اس سوال پر کہ مذاکرات حکومت سے ہوں گے یا اسٹیبلشمنٹ سے، بانی پی ٹی آئی نے کس کانام لیا؟ علیمہ خان نے کہا بانی نے مذاکرات کیلئے اسٹیبلشمنٹ کا ہی کہا ہے۔علیمہ خان نے کہا حکومت تو خود کہتی ہے اس کے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے، حکومت والے تو ٹی وی پر کہہ رہے ہیں ہمارے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے۔علیمہ خان سے جب یہ پوچھا گیا کہ سیاسی جماعت کو سیاسی جماعتوں سے مذاکرات کرنے چاہیئیں یا اسٹیبلشمنٹ سے؟ اس پر انہوں نے کہا کہ جب جماعتوں نے کہہ دیا کہ ہمارے ہاتھ میں کچھ نہیں پھر انہیں سے مذاکرات کریں گے جن کے ہاتھ میں ہے۔ علیمہ خان کا کہنا تھا کہ بانی پی ٹی آئی نے یہی کہا ہے پریکٹیکل چیز ہے اور حالات بھی اس وقت یہی ہیں۔
Post your comments