class="wp-singular post-template-default single single-post postid-16562 single-format-standard wp-theme-resolution eio-default kp-single-standard elementor-default elementor-kit-7">

ایمرجنسی کے خواب اور آئین کی دیواریں تحریر: نجیم شاہ

یہ ملک خوابوں سے نہیں، دھکوں سے چلتا ہے۔ یہاں آئین صرف کتابوں میں ہوتا ہے، عمل کہیں اور۔ اور جب کسی کو لگتا ہے کہ حالات قابو سے باہر ہو رہے ہیں، تو سب سے پہلے ’’ایمرجنسی‘‘ کا خواب دیکھا جاتا ہے۔ جیسے کوئی کبوتر بلی کو دیکھتے ہی آنکھیں بند کرکے سمجھتی ہے کہ خطرہ ٹل گیا۔ خیبرپختونخواہ میں نومنتخب وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کے حلف اُٹھاتے ہی کچھ چہروں پر وہی پرانی بے چینی لوٹ آئی ہے۔ وہی سوال، وہی وسوسے، وہی پرانا خواب — کہ کہیں ایمرجنسی لگا دی جائے، کہیں گورنر راج آ جائے، کہیں آئین کو ’’ضرورت‘‘ کے تحت موڑ لیا جائے۔ لیکن اب آئین وہ ربڑ نہیں رہا جسے ہر طاقتور اپنی مرضی سے کھینچتا تھا۔ اب یہ دیوار بن چکا ہے، اور دیواریں خوابوں کو روکنے کے لیے ہوتی ہیں۔
سہیل آفریدی کوئی عام وزیرِ اعلیٰ نہیں۔ وہ عمران خان کا منتخب کردہ اوپننگ بیٹسمین ہے۔ اگر وہ اپنے قائد کی پالیسی سے ہٹنے والے ہوتے، تو علی امین گنڈاپور کو رخصت کرنے کی نوبت ہی نہ آتی۔ گنڈاپور کا انداز جارحانہ تھا، لیکن شاید وہ اس جارحیت کو اس انداز میں نہیں برت سکے جس کی توقع عمران خان کو تھی۔ بانی تحریکِ انصاف نے سہیل آفریدی کو میدان میں اُتار کر یہ واضح کر دیا ہے کہ خیبرپختونخواہ اب صرف ایک صوبہ نہیں، بلکہ ایک بیانیہ ہے۔ اور یہ بیانیہ وہی ہے جو عمران خان برسوں سے دہراتے آئے ہیں: مزاحمت، خودمختاری، اور مرکز سے فاصلہ۔ سہیل آفریدی کا خاموش لہجہ، اُن کے محتاط بیانات، اور اُن کی سیاسی تربیت سب کچھ اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ وہ اپنے کپتان کے حکم کے تابع ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ سہیل آفریدی کو وزیراعلیٰ منتخب نہ کرانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا گیا۔ وفاقی وزراء و دیگر حکومتی نمائندوں کے بیانات ایسے تھے کہ گویا اُن کا انتخاب قومی سلامتی کے خلاف کوئی سازش ہو۔ بار بار کہا گیا کہ ہم کسی طور بھی انہیں منتخب نہیں ہونے دیں گے۔ لیکن جب پی ٹی آئی نے عددی اکثریت حاصل کر لی اور عدالتی حکم پر گورنر کو حلف لینا پڑا، تو وہی چہرے خاموش ہو گئے۔ اب سوال یہ ہے کہ ایسا وزیراعلیٰ ، جو عمران خان کی پالیسی کو اپنائے، اُسی کے حکم کے تحت پالیسیاں بنائے، اور مرکز کے سامنے جھکنے کے بجائے سوال اُٹھائے — ایسا شخص وفاق کو کیسے ہضم ہو گا؟
کیا وفاقی حکومت اس ’’نئے خیبرپختونخواہ‘‘ کو برداشت کر پائے گی؟ یا پھر وہی پرانا خواب دیکھا جائے گا — ایمرجنسی کا، گورنر راج کا، آئینی مداخلت کا؟ لیکن اٹھارہویں ترمیم نے صدر کے ہاتھ سے وہ چھڑی چھین لی ہے جس سے وہ اسمبلیاں ہانکا کرتے تھے۔ اب گورنر راج لگانا ہو تو پارلیمان کی منظوری چاہیے، آئینی جواز چاہیے، اور سب سے بڑھ کر، عوامی برداشت چاہیے۔ یعنی اب وہ دن گئے جب ایک فون کال پر صوبہ معطل ہو جاتا تھا۔ اب آئین کی شقیں صرف کتابوں میں نہیں، بلکہ طاقتوروں کے گلے کی ہڈی بن چکی ہیں — نہ نگل سکتے ہیں، نہ اُگل سکتے ہیں۔
افغانستان کیساتھ کشیدگی اور دہشتگردی کے واقعات نے خیبرپختونخواہ کو ایک سیکیورٹی فرنٹ لائن بنا دیا ہے۔ لیکن عمران خان کے حکم پر سہیل آفریدی کی پالیسی ہے: ’’ہم اپنے فیصلے خود کریں گے‘‘۔ یہ بات وفاقی حکومت کو ہضم نہیں ہو رہی۔ وہ چاہتے ہیں کہ صوبہ اُن کی ہاں میں ہاں ملائے، چاہے حالات کچھ بھی ہوں۔ لیکن آفریدی صاحب کا لہجہ بتا رہا ہے کہ وہ ’’ہاں‘‘ کے بجائے ’’کیوں‘‘ پوچھنے والے ہیں۔ اور جب کوئی ’’کیوں‘‘ پوچھتا ہے، تو ہمارے ہاں اُسے ’’باغی‘‘ سمجھا جاتا ہے۔ یہ وہی سوچ ہے جو اختلاف کو جرم بنا دیتی ہے۔ اور جب جرم کی تعریف میں اختلاف شامل ہو جائے، تو جمہوریت صرف تقریروں میں رہ جاتی ہے، عمل میں نہیں۔
ماضی میں ایمرجنسی اور گورنر راج کے کئی واقعات ہوئے۔ 1977ء میں جنرل ضیاء نے مارشل لا لگایا، 1999ء میں مشرف نے نواز شریف حکومت کا تختہ اُلٹا، 2007ء میں عدلیہ کے خلاف ایمرجنسی لگائی گئی، 2009ء میں پنجاب میں گورنر راج نافذ ہوا جب شہباز شریف کی حکومت معطل کی گئی، اور 2013ء میں بلوچستان میں دہشتگردی کے بعد گورنر راج لگایا گیا۔ لیکن یہ سب اُس وقت ہوا جب آئین ’’لچکدار‘‘ تھا۔ اب آئین ’’جمہوری‘‘ ہو چکا ہے، کم از کم کاغذوں میں۔ عمل اب بھی طاقت کے تابع ہے، لیکن آئینی بندشیں اب طاقتور کے لیے بھی رکاوٹ بن چکی ہیں۔ اور یہی وہ دیوار ہے جس پر ایمرجنسی کے خواب ہر بار ٹکرا کر چکنا چور ہو جاتے ہیں۔
نئے وزیراعلی کی وفاق سے ٹکراؤ کی پالیسی صوبے کے لیے نقصان دہ بھی ثابت ہو سکتی ہے۔ ترقیاتی فنڈز رُک سکتے ہیں، وفاقی منصوبے تعطل کا شکار ہو سکتے ہیں، اور سیکیورٹی تعاون میں کمی آ سکتی ہے۔ لیکن اگر یہ روش عوامی شعور اور حمایت کے سائے میں پروان چڑھی، تو یہ صوبائی خودمختاری کی ایک نئی مثال بن سکتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا لوگ اس ’’نئے پاکستان ‘‘ کو سمجھنے اور سنبھالنے کے قابل ہیں، یا وہ اب بھی پرانے پاکستان کے خواب میں زندہ ہیں، جہاں ہر فیصلہ اسلام آباد سے آتا تھا اور اختلاف رائے غداری کہلاتی تھی۔ یہ صرف ایک سیاسی موڑ نہیں، بلکہ آئینی شعور کی آزمائش ہے۔ بصیرت جاگ گئی تو تاریخ بدل سکتی ہے، سو گئی تو ایک اور ’’باغی‘‘ وقت کے حاشیے پر دفن ہو جائے گا۔

About the author /


Related Articles

Post your comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Newsletter