ملک میں اِس وقت جو سب سے سنجیدہ، حساس اور نازک مسئلہ زیرِ بحث ہے، وہ نہ مہنگائی ہے، نہ بجلی کی لوڈشیڈنگ، نہ تعلیمی زوال، نہ ہی صحت کا جنازہ! بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ گدھے کا گوشت کھایا جائے یا صرف سونگھ کر چھوڑ دیا جائے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے قومی بقاء، معیشت کی بحالی اور عالمی وقار کا دارومدار اِسی سوال پر ہے۔ چائے کے کھوکھوں سے لے کر پارلیمنٹ کی راہداریوں تک، ہر جگہ یہی بحث ہے۔ کوئی کہتا ہے فلاں ہوٹل میں گدھے کے شامی کباب مل رہے تھے، کوئی دعویٰ کرتا ہے کہ فلاں شادی میں گدھے کے گوشت کی بریانی پیش کی گئی، اور کچھ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ گدھے کا گوشت کھانے سے بندہ زیادہ محنتی ہو جاتا ہے — بس آواز تھوڑی بدل جاتی ہے۔
میڈیا نے اِس معاملے کو یُوں سنبھالا ہے جیسے گدھا کوئی خلائی مخلوق ہو جسے دُشمن ملک نے ہماری پلیٹوں میں اُتار دیا ہو۔ ہر چینل پر گدھے کے گوشت پر تجزیے، تبصرے، اور ماہرینِ خوراک کی رائے ایسے دکھائی جا رہی ہے جیسے گدھے کا گوشت نہ کھایا تو قوم کا مستقبل خطرے میں پڑ جائے گا۔ ایک چینل نے تو یہاں تک دعویٰ کر دیا کہ گدھے کے گوشت میں پروٹین زیادہ ہوتا ہے، بس ذائقہ تھوڑا ’’قومی‘‘ سا ہے۔ عوام بھی اِس بحث میں ایسے شریک ہیں جیسے اقوامِ متحدہ نے اُنہیں گدھے کے گوشت پر ووٹنگ کا حق دے دیا ہو۔ ہر شخص اپنی رائے رکھتا ہے، اور ہر رائے میں ایک عجیب سا ذائقہ ہوتا ہے۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے گدھے کو صرف گوشت تک محدود کر دیا ہے، حالانکہ گدھا ہماری زندگی کے ہر شعبے میں موجود ہے۔ وہ تعلیمی اداروں میں نصاب بنانے والوں کی شکل میں بیٹھا ہے، وہ سڑکوں پر ترقی کے منصوبے روکنے والوں کی صورت میں کھڑا ہے، اور وہ اُن دفاتر میں بھی پایا جاتا ہے جہاں فائلیں مہینوں دھوپ سینکتی ہیں اور افسران صرف چائے سینکتے ہیں۔ یہ وہ گدھے ہیں جنہیں نہ پکڑا جاتا ہے، نہ اُن پر کوئی پروگرام بنتا ہے، اور نہ ہی اُن کے گوشت پر کوئی بحث ہوتی ہے۔ بلکہ اُن کی موجودگی کو ہم نے اِتنا معمولی سمجھ لیا ہے کہ اب وہ ہماری سوچ کا حصہ بن چکے ہیں۔ ہم اُن کے فیصلے کھاتے ہیں، اُن کی پالیسیاں ہضم کرتے ہیں، اور اُن کی عقل پر تالیاں بجا کر خوش ہوتے ہیں۔
کبھی کبھار تو یُوں محسوس ہوتا ہے کہ گدھے کا گوشت کھانے سے زیادہ خطرناک وہ گدھے ہیں جو ہمیں کھا رہے ہیں۔ وہ جو ہر پانچ سال بعد نئے وعدوں کے ساتھ آتے ہیں، اور عوام کو قیمے کی طرح پیس کر اقتدار کی بریانی میں ڈال دیتے ہیں۔ اُن کی چالاکی ایسی ہے کہ گدھا بھی شرما جائے، اور اُن کی سادگی ایسی کہ عوام ہر بار یہی سمجھتی ہے کہ شاید اِس بار یہ بکرے نکلیں گے۔ لیکن نتیجہ وہی نکلتا ہے — قیمہ گدھے کا، مصالحہ عوام کا، اور ذائقہ ایسا کہ ہضم کرنے کے لیے صبر کی گولیاں کھانی پڑتی ہیں۔
دُعا یہی ہے کہ ہم گدھے کے گوشت سے زیادہ اُن گدھوں پر توجہ دیں جو ہر شعبے میں گھس بیٹھے ہیں۔ اگر ہم نے اُن کی پہچان نہ کی، تو ایک دن ایسا آئے گا کہ ہم خود گدھے بن جائیں گے۔ اور تب ہمیں گوشت کی نہیں، عقل کی کمی محسوس ہو گی۔ تب شاید ہم یہ سوال بھی نہ پوچھ سکیں کہ ’’گدھے کھائیں یا نہ کھائیں؟‘‘ کیونکہ ہم خود ہی کھائے جا چکے ہوں گے، وہ بھی — ذائقے کے بغیر، وقار کے بغیر، اور عقل کے بغیر
Post your comments