class="wp-singular post-template-default single single-post postid-15994 single-format-standard wp-theme-resolution eio-default kp-single-standard elementor-default elementor-kit-7">

داردی قبائل: تہذیب کے پہاڑی محافظ تحریر و تحقیق: نجیم شاہ

جب دُنیا تہذیبوں کی عظمت کے قصے سناتی ہے، تو شمالی پاکستان اور افغانستان کے سنگم پر واقع پہاڑی خطے میں صدیوں سے آباد داردی قبائل کی کہانی اکثر نظر انداز ہو جاتی ہے۔ یہ قبائل ہمالیہ، قراقرم اور ہندوکش کے سنگم پر واقع ان وادیوں میں بستے ہیں جہاں قدرتی رکاوٹیں انسان کو الگ تھلگ کر دیتی ہیں، مگر ان قبائل نے انہی رکاوٹوں کو تہذیب کا حصار بنا کر اپنی شناخت، زبان اور ثقافت کو محفوظ رکھا۔ ان کی موجودگی اِس بات کا ثبوت ہے کہ تہذیب صرف شہروں میں نہیں، پہاڑوں کی خاموشی میں بھی سانس لیتی ہے۔

داردی قبائل کا تعلق ہند یورپی نسل کی ہند آریائی شاخ سے ہے۔ ماہرین لسانیات کے مطابق آریائی اقوام کی ایک لہر ایران کے راستے ہندوستان کی طرف ہجرت کے دوران شمال کی طرف مڑ گئی اور پہاڑوں کے دامن میں سکونت اختیار کر لی۔ رفتہ رفتہ یہ قبائل مختلف وادیوں میں پھیل گئے اور ان کی زبانیں و ثقافتیں ارتقاء پذیر ہوئیں۔ ان قبائل میں شِن، کھو، کلاش، کوہستانی، پاشائی، کشمیری اور کنڑ کے دارد شامل ہیں۔

داردی زبانیں درجنوں کی تعداد میں ہیں، جن میں شِنا، کھوار، توروالی، گاوری، پاشائی اور کشمیری قابل ذکر ہیں۔ شِنا زبان گلگت بلتستان، لداخ اور بلتستان کے کچھ حصوں میں بولی جاتی ہے، جس کے کئی لہجے ہیں جیسے گلگتی، استوری، چلاسی اور گلتری۔ کھوار زبان چترال، غذر اور افغانستان کے سرحدی علاقوں میں بولی جاتی ہے۔ ان زبانوں میں بنیادی مماثلتیں پائی جاتی ہیں جو انہیں ایک لسانی خاندان کی صورت میں جوڑتی ہیں۔

تاریخی طور پر داردی قبائل گندھارا تہذیب کے وارث رہے ہیں، جو بدھ مت کے عروج کا مرکز تھی۔ ٹیکسلا، پشاور اور سوات جیسے مراکز ان کے علمی و ثقافتی محور تھے۔ ہن اور سیتھئی حملہ آوروں کے بعد ان قبائل کو شمالی وادیوں کی طرف ہجرت کرنا پڑی، جہاں انہوں نے نئی ریاستیں قائم کیں۔ گلگت میں شِن قبائل نے بروشسکی بولنے والے بورش لوگوں کو بالائی علاقوں کی طرف دھکیل کر اپنی ریاست قائم کی، جبکہ چترال میں کھو اور کلاش قبائل نے زبانی روایات پر مبنی ریاستیں بنائیں۔

پشتون علاقوں میں ’’ڈوما‘‘ ریاست ایک اہم مثال ہے، جس کے حکمران کو ’’ڈوما کافر‘‘ کہا جاتا تھا۔ سترہویں صدی میں معروف عالم، فقیہہ، مؤرخ، غازی اور صاحبِ تصنیف بزرگ محمد اکبر شاہ معروف بہ اخوند سالاک اور یوسفزئی سردار بہاکو خان پنجتار کے حملے نے اس ریاست کو ختم کر دیا، اور داردی قبائل کو اباسین کوہستان، چترال اور گلگت کی طرف ہجرت کرنا پڑی۔ اخوند سالاک نے وہاں بھی ان کا تعاقب کیا۔ اس واقعے نے داردی قبائل کی سیاسی خودمختاری کو شدید نقصان پہنچایا اور ان کی اجتماعی شناخت کو مزید کمزور کر دیا۔

ان علاقوں میں اسلام کی آمد تو بہت پہلے سے ہو چکی تھی تاہم صحیح معنوں میں اس کی اشاعت و ترویج سولہویں سے اٹھارہویں صدی کے دوران ہوئی، جس میں پیر بابا، اخوند درویزہ بابا، اخوند سالاک بابا اور دیگر بزرگان دین نے کلیدی کردار ادا کیا۔ ان کی تعلیمات اور جہادی مہمات کے نتیجے میں بیشتر داردی قبائل مشرف بہ اسلام ہوئے۔ تاہم آج بھی چند گروہ اپنے قدیم مذہب پر قائم ہیں، خاص طور پر کلاش قبیلہ جو اپنی منفرد ثقافت اور مذہبی رسومات کے باعث عالمی توجہ کا مرکز ہے۔

موجودہ دور میں داردی قبائل شدید ثقافتی اور لسانی بحران سے دوچار ہیں۔ کھوار، شِنا، توروالی، گاوری اور پاشائی جیسی زبانیں زوال پذیر ہیں، اور کئی چھوٹی زبانیں صفحہ ہستی سے مٹ چکی ہیں۔ نوجوان نسل میں اپنی شناخت کے بارے میں شعور کی کمی، شہری زندگی کی کشش اور جدیدیت کے دباؤ نے ان کی روایات، موسیقی، لباس اور رسوم و رواج کو متاثر کیا ہے۔ افغانستان میں جاری جنگی حالات نے وہاں کے داردی قبائل کو شہروں کی طرف ہجرت پر مجبور کر دیا ہے۔

ریاستی اداروں، تعلیمی حلقوں اور ثقافتی تنظیموں کو چاہیے کہ فوری اقدامات کریں۔ ان زبانوں کو تعلیمی نصاب میں شامل کیا جائے، لغات اور لوک ادب کو محفوظ کیا جائے، اور ان کے علاقوں میں ترقیاتی منصوبے شروع کیے جائیں تاکہ مقامی آبادی کو روزگار اور سہولیات میسر آئیں۔ داردی قبائل پاکستان کے ثقافتی گلدستے کا ایک نایاب رنگ ہیں، اور ان کی بقا اس خطے کی تہذیبی شناخت کی بقا ہے۔

یہ وقت ہے کہ ہم تاریخ کے ان خاموش محافظوں کی آواز بنیں۔ ان کی زبانوں کو زندہ رکھیں، ان کی ثقافت کو سنواریں، اور ان کی شناخت کو مٹنے سے بچائیں۔ اگر ہم نے ان قبائل کو فراموش کر دیا تو ہم صرف ایک قوم نہیں بلکہ ایک تہذیب سے محروم ہو جائیں گے۔ داردی قبائل کی بقا، ہماری تہذیبی روح کی بقا ہے — اور یہ بقا، آج ہمارے شعور، فیصلوں اور عمل کی منتظر ہے۔

About the author /


Related Articles

Post your comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Newsletter