class="wp-singular post-template-default single single-post postid-16373 single-format-standard wp-theme-resolution eio-default kp-single-standard elementor-default elementor-kit-7">

نازک موڑ: ہماری دائمی منزل تحریر: نجیم شاہ

کہتے ہیں ہر قوم کا کوئی نہ کوئی قومی نشان، قومی پھول، قومی پرندہ اور قومی انا ہوتی ہے، مگر پاکستانی قوم کو جو واحد شے وراثت میں ملی، وہ ہے ’’نازک موڑ‘‘۔ یہ وہ واحد چیز ہے جو ہمیں مفت میں ملی، اور ہم نے اسے دل سے لگا کر ایسا اپنایا کہ اب یہ ہماری قومی پہچان بن چکی ہے۔ دُنیا والے حیران ہوتے ہیں کہ ہم اٹھہتر برس سے ایک ہی موڑ پر پھنسے ہوئے ہیں، مگر ہمیں اس پر فخر ہے۔ قوموں کو بحران آتے ہیں، ہم تو بحران کے مستقل کرایہ دار بن چکے ہیں۔

پاکستان میں حکومتیں آتی ہیں، جاتی ہیں، مگر نازک موڑ کی جگہ مستقل ہے۔ ہر نئی حکومت آتے ہی پہلے روز اعلان کرتی ہے کہ ملک نازک موڑ سے گزر رہا ہے، گویا وزارتِ عظمیٰ نہیں، ایمبولینس کا اسٹیئرنگ سنبھالا ہو۔ عوام پہلے تو گھبرا جاتے تھے، اب کان پک چکے ہیں۔ اب اگر کوئی سیاستدان یہ جملہ نہ بولے تو قوم کو شک ہوتا ہے کہ شاید وہ نئی سی ڈی سے نکلا ہوا نیا ماڈل ہے، یا اسے سسٹم کی اصل خرابیاں معلوم نہیں۔

نازک موڑ کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ یہ ہر ناکامی کا بہترین جواز ہے۔ بجلی چلی گئی؟ نازک موڑ۔ مہنگائی بڑھ گئی؟ موڑ نازک ہے۔ بندہ بیوی کو سالگرہ پر تحفہ نہ دے سکے تو کہہ دیتا ہے کہ حالات نازک ہیں، بس دُعا کرو کہ ملک اس موڑ سے نکل آئے۔ گویا ہم اپنی ذاتی ناکامیوں کو بھی ملکی حالات کے کھاتے میں ڈال کر پاک صاف ہو جاتے ہیں، جیسے ہماری نیت تو نیک تھی، بس آئی ایم ایف مان نہیں رہا تھا۔

معاشی ماہرین کے مطابق، اگر ہم نے ہر نازک موڑ پر رُکنے کے بجائے واقعی چلنا شروع کیا ہوتا تو اب تک مریخ پر پاکستانی پرچم لہرا چکا ہوتا۔ مگر ہم تو موڑ کو دیکھ کر خوش ہو جاتے ہیں، لگتا ہے جیسے نیا تفریحی مقام دریافت ہوا ہو۔ ہم موڑ پر خیمے لگا لیتے ہیں، وہاں قہوے کی دُکانیں، سیاسی تبصرے، اور افواہوں کی ہنڈیا چڑھا دیتے ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے ہم کسی ٹرک کی بریک فیل زندگی گزار رہے ہوں، جو ہر موڑ پر سْرک سْرک کر پھنستا جا رہا ہے۔

ہر شعبہ زندگی میں نازک موڑ داخل ہو چکا ہے۔ تعلیمی اِدارے موڑ پر، صحت کا نظام موڑ پر، انصاف کا ترازو بھی ہلتے ہلتے نازک ہو چکا ہے۔ یہاں تک کہ عوام کی برداشت، اُمید، خوشی، سب کچھ نازک ہو چکا ہے۔ اگر کوئی آپ کو خوش دیکھ لے تو شک کرتا ہے کہ یا تو اسے نئی نوکری ملی ہے یا یہ بندہ ملک سے باہر جا رہا ہے۔ پاکستان میں خوشی کے آثار اب غیر قانونی سمجھے جاتے ہیں، کیونکہ وہ ملکی بیانیے سے میل نہیں کھاتے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ نازک موڑ اب ہمارے روزمرہ مکالمے کا حصہ بن چکا ہے۔ اگر دوست کی طبیعت خراب ہو تو ہم کہتے ہیں: ’’یار، لگتا ہے تُو بھی نازک موڑ پر ہے۔‘‘ کسی کا رشتہ نہ ہو رہا ہو، تو مشورہ دیتے ہیں: ’’تھوڑا صبر کر، ابھی تو سب کچھ نازک موڑ پر ہے۔‘‘ لگتا ہے جیسے یہ موڑ ہمارے ڈی این اے میں داخل ہو چکا ہے، جو ہر نئی نسل کو بغیر ویزے کے منتقل ہو رہا ہے۔ مستقبل قریب میں شاید ’’نازک موڑیات‘‘ کے نام سے باقاعدہ یونیورسٹی کورس بھی متعارف ہو جائے۔

اور اگر کبھی خدا نخواستہ واقعی ہم اس موڑ سے نکلنے لگیں، تو خود کوئی نیا موڑ بنا لیتے ہیں۔ کیونکہ ہمیں سیدھا چلنے کی عادت ہی نہیں۔ کوئی نہ کوئی ایسا پیچ، ایسا بحران، ایسا تنازع پیدا کر لیا جاتا ہے کہ نظام پھر سے فْل ٹائم ’’موڑ موڑ‘‘ کھیلنے لگتا ہے۔ جیسے بچپن میں ہم لُڈو کھیلتے تھے، آج ہم نازک موڑ کھیل رہے ہیں، فرق صرف اتنا ہے کہ لُڈو میں کبھی جیت بھی ہو جاتی تھی، یہاں صرف باریاں چلتی ہیں۔

اگر کبھی کوئی دِن ایسا آئے کہ ٹی وی پر نازک موڑ کا ذکر نہ ہو، تو عوام کو تشویش لاحق ہو جاتی ہے۔ لگتا ہے جیسے کچھ بڑا چھپایا جا رہا ہے۔ اب تو ہمیں اتنی عادت ہو چکی ہے کہ اگر کوئی بندہ سیدھی بات کر دے تو قوم اْسے شک کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ ہم نے نازک موڑ کو نہ صرف اپنایا بلکہ اس پر دُکانیں، سیاست، ثقافت، اور بیانیہ تک کھڑا کر دیا۔ یہ اب ہمارا طرزِ حیات ہے، منزل نہیں بلکہ مقدر ہے۔

سچ تو یہ ہے کہ نازک موڑ اب محض ایک مرحلہ نہیں رہا، یہ ہماری اجتماعی نفسیات کا حصہ بن چکا ہے۔ اگر کبھی واقعی ہم اس موڑ سے نکل بھی گئے، تو ہمارا دِل نہیں لگے گا۔ ہمیں وہی پرانا موڑ یاد آئے گا، جہاں نہ ترقی تھی، نہ انصاف، نہ بجلی، لیکن قوم کی اجتماعی خودفریبی خوب پنپ رہی تھی۔ ہم واپس پلٹیں گے، پھر اسی موڑ پر بیٹھیں گے، چائے کا کپ تھامیں گے، اور کہیں گے: ’’بس یار، یہیں اچھا لگتا ہے۔‘‘

About the author /


Related Articles

Post your comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Newsletter