class="wp-singular post-template-default single single-post postid-15523 single-format-standard wp-theme-resolution eio-default kp-single-standard elementor-default elementor-kit-7">

اعوان قبیلہ: تاریخ، نسب اور شناخت کا آئینہ تحریر و تحقیق: نجیم شاہ

برصغیر کی تہذیب و تمدن میں قبائلی شناخت ہمیشہ سے ایک اہم عنصر رہی ہے۔ ہر قبیلہ اپنے اندر ایک تاریخ، ایک ثقافت اور ایک نسبی فخر لیے ہوئے ہوتا ہے۔ انہی قبائل میں اعوان قبیلہ ایک ممتاز مقام رکھتا ہے، جو نہ صرف اپنی عربی النسل شناخت کے باعث معروف ہے بلکہ برصغیر میں اسلام کی تبلیغ، عسکری خدمات اور زمیندارانہ روایات کے حوالے سے بھی نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ اعوان قبیلے کا دعویٰ ہے کہ ان کا نسب حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے جا ملتا ہے، اور ان کے جدِ امجد عون قطب شاہ بغدادی تھے، جنہوں نے برصغیر میں اسلام کی شمع روشن کی۔

اعوان قبیلے کی تاریخ کا آغاز اس وقت ہوتا ہے جب عون قطب شاہ بغدادی، جو حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کے ہم عصر اور ان کے حکم پر تبلیغِ اسلام کے لیے مامور ہوئے، وادی سون (ضلع خوشاب) میں وارد ہوئے۔ یہ واقعہ پانچویں صدی ہجری کے وسط میں پیش آیا۔ عون قطب شاہ نے نہ صرف اسلام کی تبلیغ کی بلکہ مقامی آبادی میں رچ بس گئے۔ ان کی اولاد نے مختلف علاقوں میں سکونت اختیار کی، جن میں کالا باغ، سکیسر، گجرات، تلہ گنگ اور چکوال شامل ہیں۔ ان کا مزار کاظمین شریف (عراق) میں شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کے قدموں کی جانب واقع ہے، جو ان کے روحانی مرتبے کی گواہی دیتا ہے۔

اعوان قبیلہ برصغیر میں عرب حملہ آوروں کے ساتھ آیا اور ساتویں صدی عیسوی میں کوہ نمک کے دامن میں آباد ہوا۔ ان کی آمد کے ساتھ ہی اسلام کی تعلیمات نے مقامی معاشرے میں جڑیں پکڑنا شروع کیں۔ اعوانوں نے نہ صرف دینی تعلیم کو فروغ دیا بلکہ زمیندارانہ نظام میں بھی اپنا مقام بنایا۔ انگریز دور میں اعوانوں کو ’’مارشل ریس‘‘ قرار دیا گیا، جس کے باعث انہیں فوج میں بھرتی کے لیے ترجیح دی گئی۔ اس دور میں اعوان نوجوانوں نے فوجی خدمات میں نمایاں کردار ادا کیا اور کئی اعزازات حاصل کیے۔

اعوان قبیلے کی شناخت صرف ان کے نسب یا عسکری خدمات تک محدود نہیں بلکہ ان کی ثقافت، روایات اور دینی وابستگی بھی انہیں ممتاز بناتی ہے۔ اعوان خاندانوں میں حفظِ قرآن، دینی تعلیم اور شریعت کی پابندی کو ہمیشہ اہمیت دی گئی ہے۔ ان کے ہاں بزرگوں کی عزت، مہمان نوازی اور سادگی کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ یہی اقدار انہیں دیگر قبائل سے ممتاز کرتی ہیں۔

اعوان قبیلے کی کئی ذیلی شاخیں ہیں، جنہیں ’’گوت‘‘ یا ’’مشجر‘‘ کہا جاتا ہے۔ ان شاخوں کی تعداد مختلف علاقوں میں مختلف ہو سکتی ہے، مگر عمومی طور پر بیس سے زائد ذیلی شاخیں بتائی جاتی ہیں۔ ان میں کلی گھلی، دادا گورڑا، کرولی اعوان، اعوان کاری، اور گوہر شاہ جیسے نام شامل ہیں۔ ہر شاخ کی اپنی الگ شناخت، روایات اور مقام ہے، مگر سب کا نسب عون قطب شاہ سے جا ملتا ہے۔ ان شاخوں کی تفصیل مختلف علاقوں میں مختلف انداز سے بیان کی جاتی ہے، اور بعض محققین نے ان کی مکمل فہرست مرتب کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔

اعوان قبیلے کے نسب کی سند کے طور پر کئی کتب موجود ہیں، جن میں ’’تاریخ باب الاعوان‘‘،’’تاریخ زاد الاعوان‘‘، ’’تحقیق الاعوان‘‘ اور ’’نسب الاعوان‘‘ شامل ہیں۔ ان کتب کو مولوی نور الدین، مولوی حیدر علی، ایم خواص خان اور مولانا حسام الدین اعوان جیسے محققین نے تحریر کیا۔ ان میں عون قطب شاہؒ کی اولاد، اُن کی نسلوں کا مشجر، اور مختلف علاقوں میں آباد اعوان خاندانوں کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔ یہ کتب نہ صرف اعوان قبیلے کی تاریخ کو محفوظ کرتی ہیں بلکہ ان کے نسبی دعوے کو بھی تقویت دیتی ہیں۔

آج بھی اعوان قبیلہ پاکستان کے مختلف علاقوں میں آباد ہے، جن میں پنجاب، خیبر پختونخواہ، کشمیر اور سندھ شامل ہیں۔ ان کی اکثریت زمیندار طبقے سے تعلق رکھتی ہے، مگر تعلیم، سیاست، فوج اور دیگر شعبہ جات میں بھی نمایاں کردار ادا کر رہی ہے۔ کئی معروف شخصیات، سیاستدان، فوجی افسران اور علماء کا تعلق اعوان قبیلے سے رہا ہے، جنہوں نے قومی سطح پر خدمات انجام دی ہیں۔

اعوان قبیلہ ایک زندہ روایت کا نام ہے، جو نہ صرف اپنے ماضی پر فخر کرتا ہے بلکہ حال میں بھی اپنی شناخت کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔ ان کا نسب، ان کی تاریخ، اور ان کی خدمات اس بات کا ثبوت ہیں کہ قبائلی شناخت صرف ماضی کی یادگار نہیں بلکہ حال اور مستقبل کی راہ بھی متعین کرتی ہے۔ اعوان قبیلہ اس راہ کا ایک روشن چراغ ہے، جو نسل در نسل اپنی روشنی پھیلائے جا رہا ہے۔

About the author /


Related Articles

Post your comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Newsletter