(مزاحیہ آئینہ)
دنیا ایٹم بم کے زور پر مریخ پر بستیاں بنانے کا سوچ رہی ہے اور ہم اب بھی اپنی عظمتِ رفتہ کے تندور میں کلچے لگا رہے ہیں۔ جب دُنیا مصنوعی ذہانت سے مستفیدہو رہی ہو، اے آئی روبوٹ نوکریاں چھین رہے ہوں،اور آپ خالہ کے ہاتھ کی بنی ’’روایتی روٹی‘‘ پر فخر محسوس کر رہے ہوں، تو سمجھ لیں کہ آپ ترقی نہیں، تندور کے دھوئیں میں جکڑے ہوئے ہیں۔
اب ہمارے ملک میں ایٹم بم صرف نعرۂ ہے، جسے ہر بندہ اپنی مرضی سے استعمال کرتا ہے۔ جیسے ایک دِن پڑوسی چاچا بولے:
“ہم ایٹمی طاقت ہیں، ہمیں کوئی غلام نہیں بنا سکتا!”
ہم نے کہا:
“چاچا، ابھی تو آپ کے تندور سے دھواں سیدھا ہماری کھڑکی میں آ رہا ہے، پہلے وہ غلامی تو ختم کریں!”
سچ پوچھیں تو ہم نے ایٹمی طاقت کو بھی اتنا سادہ بنا دیا ہے جیسے بیگم چائے کے ساتھ ’’دو بسکٹ اور دے دینا‘‘ کہہ رہی ہو۔ ملک کا حال ایسا ہے کہ ایک طرف ہم اقوامِ متحدہ میں سینہ تان کر کہتے ہیں:
“ہم نیوکلیئر پاور ہیں!”
اور دوسری طرف ہمارا شہری بجلی نہ ہونے پر مٹی کے تندور کے گرد ایسے بیٹھا ہوتا ہے جیسے اگلے مشاعرہ وہیں ہو رہا ہو۔
ایٹمی طاقت کے باوجود ہمارا عام بندہ آج بھی یہ سمجھتا ہے کہ وائی فائی ایک بیماری ہے، جو کھلی چھت پر کھڑے ہونے سے لگتی ہے، اور گوگل ارتھ دراصل ناسا کی کوئی زمین ناپنے والی پٹّی ہے۔
آپ کسی بیرونِ ملک دوست کو بتائیں کہ “ہم نیوکلیئر نیشن ہیں” تو وہ متاثر ہو جاتا ہے، پھر جب وہ پاکستان آتا ہے اور آپ کو مٹی کے تندور پر روٹی لگاتے دیکھتا ہے تو اُس کا پہلا سوال یہی ہوتا ہے:
“ایٹم بم آپ نے روٹی پکانے کے لیے بنایا تھا؟”
اصل کہانی یہ ہے کہ تندور ہماری قومی شناخت کا ایسا لازمی حصہ بن چکا ہے جیسے چائے کے ساتھ کیک رس۔ کوئی بھی محلہ تندور کے بغیر ایسے لگتا ہے جیسے دلہا کے بغیر شادی۔ بلکہ اکثر دلہے بھی تندور پر نظر آ جاتے ہیں، بس فرق یہ ہوتا ہے کہ ان کے چہرے پر ہلدی ہوتی ہے، آٹے کا غبار نہیں۔
تندور کے محافظ اب اتنے جذباتی ہو چکے ہیں کہ اگر کسی نے غلطی سے کہہ دیا کہ ’’اب تو الیکٹرک روٹی میکر آ گئے ہیں‘‘ تو وہ ایسے بھڑک جاتے ہیں جیسے کسی نے اُن کے نانا ابو کو فریج میں رکھنے کی تجویز دے دی ہو۔
اب جدید دْنیا میں جہاں ڈرون، آرٹیفیشل انٹیلیجنس اور خلائی سیاحت عام ہو چکی ہے، ہم ابھی بھی لکڑی کے گٹھے کندھے پر رکھ کر خوش ہیں کہ ’’واہ بھئی! خود کفالت دیکھو!‘‘ بندہ پوچھے، بھائی جان، خود کفالت اگر سانس روکنے سے آتی تو ہم آج ورلڈ ریکارڈ ہولڈر ہوتے!
چند دن پہلے خبر ملی کہ جاپان کا بچہ روبوٹ کو جاپانی کھانا بنانا سکھا رہا ہے۔ اور ادھر ہمارا بچہ تندور میں جھانک کر پوچھتا ہے:
“امی، یہ روٹی کالی کیوں ہو گئی؟”
ماں جواب دیتی ہے:
“بیٹا، یہ محنت کی سچائی ہے!”
ایٹم بم بنانے کے بعد ہم شاید یہ سمجھ بیٹھے کہ اب کچھ کرنے کی ضرورت نہیں۔ جیسے کوئی بندۂ ایک بار اسکول میں پوزیشن لے کر باقی ساری زندگی اسی سند کی چھپائی کروا کر لوگوں کو دکھاتا رہے۔
دُنیا واقعی بہت آگے نکل گئی ہے۔ ہم نے بھی ایٹم بم بنا لیا، مگر ساتھ تندور سنبھال کر رکھا۔ جیسے کسی نے ایم بی بی ایس کر کے دودھ دہی کی دکان کھول لی ہو۔
بات صرف ایٹمی طاقت کی نہیں، سوچ کی ہے۔ اور جب تک ہماری سوچ تندور سے آگے نہیں بڑھے گی، تب تک ہم ہر عالمی فورم پر یہی کہیں گے:
“جی ہاں، ہم ایٹمی طاقت ہیں… اور کلچے بہترین بناتے ہیں!”
اب وقت آ گیا ہے کہ ہم تندور کو ماضی کی یادوں میں محفوظ کر کے آگے بڑھیں۔ کیونکہ دُنیا آگے جا چکی ہے۔ وہ اب چاند پر کھانے کے وینڈنگ مشین لگا رہی ہے اور ہم ابھی تک تندور کی آگ میں ’’ترقی کی بھونی ہوئی اُمیدیں‘‘ سینک رہے ہیں۔
Post your comments