Mohammad Naeem Talat
آٹھویں جماعت کے طالب علم کو “چور” پر ایک مضمون لکھنے کو کہا گیا، تو اس نے کچھ ایسا مضمون لکھا،
“چور بھی کسی ملک کی معیشت کا ایک اہم حصہ ہوتے ہیں۔ وہ روزگار فراہم کرنے اور ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
آپ کو یہ پڑھ کر حیرت ہو سکتی ہے، لیکن میں اس پر کچھ روشنی ڈالتا ہوں۔
سیف، تالے، لاکر، الماری وغیرہ صرف چوروں کی وجہ سے بنتے ہیں۔ اس پیشے کی بدولت ان اشیاء کو بنانے میں شامل کئی فیکٹریاں اور ورکشاپس روزگار فراہم کرتی ہیں۔
یہاں تک کہ گھروں میں، معماروں اور کارکنوں کو کھڑکیوں اور دروازوں پر لیچ، تالے، گرل لگانے کا کام ملتا ہے۔
پھر گھروں، دکانوں، سکولوں، کالجوں، دفاتر اور کارخانوں کی حفاظت کے لیے سکیورٹی گارڈ اور چوکیدار ضروری ہیں۔
وہ کمپنیاں جو سی سی ٹی وی کیمروں، میٹل ڈیٹیکٹرز، اور سیکیورٹی سسٹمز تیار کرتی ہیں، وہ بھی ملازمتیں پیدا کرتی ہیں۔
چوروں کی وجہ سے پولیس افسران، عدالتی عملہ، جج، وکلا اور دیگر ملازم ہیں۔
پولیس کے لیے رکاوٹیں، ہتھیار، گولیاں، لاٹھیاں، یونیفارم، گاڑیاں، اور موٹر سائیکلوں کی خریداری سے معیشت کو فروغ دینے میں مدد ملتی ہے۔
چوروں کی بدولت جیل، جیلر اور جیل کے عملے کے پاس نوکریاں ہیں۔
جب موبائل، لیپ ٹاپ، کار، موٹرسائیکل، برقی آلات، پرس یا لپ اسٹک جیسی اشیاء چوری ہو جاتی ہیں تو لوگوں کو انہیں دوبارہ خریدنا پڑتا ہے جس سے کاروبار کو فروغ ملتا ہے۔
مشہور اور بدنام چور اکثر سیاست میں آتے ہیں، جہاں بڑی چوریاں بھی ہوتی ہیں۔
اور بھی بہت کچھ کہا جا سکتا ہے، لیکن مجموعی طور پر ملک کی معیشت میں چوروں کا حصہ قابل ذکر ہے۔”
گویا کہ اس مضمون کو مزاحیہ انداز میں لیا گیا ہے، مگر اصل چیز تو یہ ہے کہ اس کا ایک ایک لفظ حقیقت سے قریب تر اور سچائی پہ مبنی ہے۔ بس ہر کسی کا اسکو مختلف انداز اور زاویے سے دیکھنے کا ہے۔
آج کے کالم کے توسط سے اتنا ہی، کسی قسم کے تبصرے کےلئے اوپر دئیے گئے ای میل پہ رابطہ کر سکتے ہیں۔

























Post your comments