بین الاقوامی تعلقات کی دنیا میں ہر بیان، ہر خاموشی، اور ہر لفظ اپنی ایک الگ زبان رکھتا ہے۔ کبھی ہتھیار خاموش ہوتے ہیں، مگر مفاہمت شور مچاتی ہے؛ اور کبھی ایک “سیزفائر” کا اعلان دراصل شکست کی دستخط شدہ دستاویز بن جاتا ہے۔ آج ہم تاریخ کے ایسے ہی ایک اہم لمحے پر کھڑے ہیں۔
ایران اور اسرائیل کے درمیان امریکی حمایت یافتہ یکطرفہ سیزفائر کا اعلان، نہ تو کسی دیرپا امن کی نوید ہے، نہ کسی تنازع کے حل کی دلیل۔ یہ درحقیقت ایک مکمل سیاسی، اسٹریٹیجک اور نفسیاتی پسپائی کا اعتراف ہے — ایک ایسی طاقت کی جانب سے جس نے دہائیوں تک ایران کو دبانے، کمزور کرنے اور تقسیم کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔
یہ وہی امریکہ ہے جو سالہا سال سے ایران میں “ریجیم چینج” کا خواب آنکھوں میں سجائے بیٹھا تھا۔ جو ایرانی قیادت کو مفلوج کرنے، نیوکلیئر پروگرام کو روکنے اور مزاحمتی بلاک کو توڑنے کی راہ پر گامزن رہا۔ مگر آج وہی امریکہ، اپنی عسکری چالوں، اقتصادی پابندیوں، اور سفارتی دباؤ کے باوجود، سیزفائر جیسے لفظ کے پردے میں اپنی ناکامی چھپانے پر مجبور ہو چکا ہے۔
سوال یہ ہے کہ زمینی حقیقت کیا کہتی ہے؟
قیادت کا استحکام:
آیت اللہ خامنہ ای نہ صرف محفوظ ہیں بلکہ اُن کی فکری، نظریاتی اور تزویراتی حیثیت پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط ہو چکی ہے۔ ان کی قیادت نے نہ صرف ایرانی عوام کو، بلکہ ملتِ اسلامیہ کو جرات، استقامت اور غیرت کا راستہ دکھایا۔
نیوکلیئر اور دفاعی صلاحیت برقرار:
فردو، نطنز، اراک — ایران کے تمام حساس تنصیبات قائم و محفوظ ہیں۔ ایران کا جوہری پروگرام نہ صرف موجود ہے بلکہ عالمی سطح پر یہ تاثر مضبوط ہو چکا ہے کہ دباؤ کے تحت اس سے دستبرداری ممکن نہیں۔
میزائل طاقت اب سفارتی زبان بن چکی:
سجّیل، خیبرشکن، فاتح 110 — اب محض ہتھیار نہیں، بلکہ پورے خطے میں طاقت کے توازن کے ستون ہیں۔ اسرائیل کی دفاعی گہرائی کو گہرا جھٹکا لگ چکا ہے۔
عوامی بغاوت کا افسانہ دفن ہو چکا:
امریکہ اور اس کے اتحادی جس “اندرونی انقلاب” کے خواب دیکھتے رہے، وہ ایرانی گلیوں میں بیداری، اتحاد اور حب الوطنی کی شکل میں دفن ہو گیا ہے۔
سیاسی جھکاؤ کا امکان ختم:
نہ ایران نے معذرت کی، نہ جھکاؤ دکھایا، نہ پسپائی اختیار کی۔ ہر محاذ پر مزاحمت کو وقار کے ساتھ ترجیح دی گئی۔
مزاحمتی بلاک کی مضبوطی:
لبنان، شام، یمن، عراق — ہر محاذ پر مزاحمت نے امریکہ و اسرائیل کو دفاعی اور سفارتی بحران میں مبتلا کر دیا ہے۔
اسرائیل، اب دفاعی پوزیشن میں:
تل ابیب کے بنکرز، حیفہ کے سائرن، آئرن ڈوم کی بے بسی — یہ سب امریکہ کے سب سے بڑے اتحادی کی شکست خوردہ نفسیات کا آئینہ ہیں۔
بدلتی دنیا، نئی قیادت:
آج کی دنیا میں طاقت کا مطلب صرف ٹیکنالوجی نہیں — قیادت، بیانیہ اور قومی عزم اب طاقت کے نئے پیمانے بن چکے ہیں۔ ایران نے دنیا کو سکھایا کہ اگر ایک قوم خودداری، وحدت اور ایمان سے لیس ہو، تو پھر عالمی دباؤ، پابندیاں اور دھمکیاں — سب بے اثر ہو جاتے ہیں۔
یہ سیزفائر نہیں، بلکہ طاقت کے توازن کی نئی تقسیم ہے۔
پاکستان کے لیے پیغام:
ایران کا ماڈل پاکستان کے لیے ایک خاموش لیکن گہرا پیغام ہے: قیادت باشعور ہو، قوم متحد ہو، اور بیانیہ خودمختار ہو، تو کوئی طاقت ہمیں مغلوب نہیں کر سکتی۔ اب فیصلہ ہمیں کرنا ہے — کیا ہم تماشائی رہیں گے یا تاریخ کے تخلیق کار بنیں گے؟
اختتامی نوٹ:
امریکہ نے بظاہر جنگ روک دی، مگر درحقیقت اس نے شکست کو قبول کیا۔ یہ سیزفائر آنے والے عالمی سیاسی منظرنامے کا ایک خاموش، مگر فیصلہ کن اشارہ ہے۔
یہ میرا تجزیہ ہے — بطور ایک مسلمان مفکر اور مشاہدہ نگار۔
محمد حسن مسعود
پریذیڈنٹ، ایم ڈی اے ڈویلپمینٹ فورم
Post your comments