ماضی میں ایک روایت مشہور رہی کہ تھل کے لوگ عرب نسل سے ہیں، مگر محققین کے مطابق یہاں کے باشندوں کے اجداد بالائی سوات سے آئے تھے۔ ان کے تین جد امجد — لال، سل اور باراتیور — کانجو اور دمگھر سے ہجرت کر کے تھل کے اوپر بلاسکوٹ میں آباد ہوئے۔ بلاسکوٹ کے کھنڈر آج بھی اس قدیم بستی کی یاد دلاتے ہیں اور اِس بات کا ثبوت ہیں کہ یہ علاقہ صدیوں سے انسانی آبادکاری کا مرکز رہا ہے۔ یہی کھنڈر اس خطے کی قدامت اور تسلسل کو اجاگر کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ یہ وادیاں ہمیشہ سے انسانی زندگی کا گہوارہ رہی ہیں۔
تھل اور اس کے اطراف کے قبائل اپنی قدیم تاریخ کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ ان کے آباء و اجداد ’’کافر‘‘ کہلاتے تھے۔ یہ وہ دور تھا جب اسلام کی روشنی ان وادیوں تک نہیں پہنچی تھی اور لوگ اپنی قدیم مذہبی روایات پر قائم تھے۔ سترہویں صدی میں ایک عظیم مذہبی شخصیت اخوند سالاکؒ نے ان وادیوں میں قدم رکھا۔ وہ نہ صرف دینی تعلیمات کے حامل تھے بلکہ قبائل کو منظم کرنے اور اسلام کی روشنی پھیلانے میں بھی اُن کا کردار نمایاں رہا۔ اُن کی کوششوں سے تھل کے بڑے خاندانوں نے اسلام قبول کیا اور کئی نسلوں تک اُن کی اولاد مذہبی عشر وصول کرتی رہی، جو اِس بات کی غمازی کرتا ہے کہ اخوند سالاک کا اثر و رسوخ کئی پشتوں تک قائم رہا۔
اخوند سالاک کی شخصیت اس خطے کی تاریخ میں ایک روشن باب ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جب اُنہوں نے بیرا کافر یا بیر دادا کے قلعے پر حملہ کیا تو اُسے شکست ہوئی اور اس کے بعد یہ علاقہ اسلامی اثر میں آ گیا۔ بریکوٹ گاؤں کے مشرقی ڈھلوان پر آج بھی بیرا کافر کے قلعے کے آثار موجود ہیں۔ اس قلعے کا ذکر 1902ء میں محقق گاڈ فری نے اپنے مقالے میں کیا ہے۔ اُن کے مطابق بیرا کافر کا اصل گاؤں اور قلعہ بالائی سوات کے بریکوٹ میں تھا، جسے مسلمان لشکر نے حملہ کر کے تباہ کر دیا۔ اس کے بعد بیرا اپنے خاندان کے ساتھ پنجکوڑہ کوہستان آیا اور وہاں ایک نیا قلعہ تعمیر کیا۔
تھل گاؤں اور دریائے پنجکوڑہ کے کنارے آباد بستیاں مسلسل تبدیلیوں کا شکار رہیں۔ مقامی قبائل نے اپنی بقا کے لئے پہاڑوں میں پناہ لی، مگر وقت کے ساتھ یہ علاقے اسلام کے زیرِ اثر آ گئے۔ گاؤری قبائل کی اکثریت نے اسلام قبول کیا اور رفتہ رفتہ پشتون شناخت کے ساتھ ضم ہو گئے۔ یہی وجہ ہے کہ آج دیر کوہستان میں گاؤری شناخت محدود ہو کر چند دیہاتوں تک رہ گئی ہے، جبکہ باقی قبائل نے اپنی زبان اور ثقافت کھو کر پشتون شناخت اختیار کر لی۔ اِس تبدیلی نے نہ صرف مذہبی بلکہ سماجی اور ثقافتی ڈھانچے کو بھی نئی شکل دی۔
محمد اکبر شاہ المعروف اخوند سالاکؒ کا کردار اس خطے کی تاریخ میں نہایت اہم ہے۔ اُنہوں نے نہ صرف مذہبی رہنما کے طور پر اپنی پہچان بنائی بلکہ سیاسی اور سماجی تبدیلیوں میں بھی ان کا اثر نمایاں رہا۔ اُن کی تبلیغ اور اصلاحی کوششوں نے تھل کے لوگوں کو ایک نئی سمت دی۔ بیرا کافر اور اُس کے قلعے کی داستان آج بھی اجتماعی یادداشت میں زندہ ہے اور یہ قصہ اس بات کا ثبوت ہے کہ تاریخ میں شخصیات کس طرح پورے خطے کی تقدیر بدل دیتی ہیں۔
دریائے پنجکوڑہ اور تھل کی تاریخ ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ وقت کے ساتھ طاقتور قبائل اور رہنما اِس خطے کی تقدیر بدلتے رہے۔ اخوند سالاک کی شخصیت اس تاریخ کا اہم حصہ ہے، جس نے علاقے میں اسلام کی تبلیغ میں نمایاں کردار ادا کیا۔ یہ داستان آج بھی دیر کوہستان کے پہاڑوں میں گونجتی ہے اور ہمیں یاد دلاتی ہے کہ تاریخ محض واقعات کا سلسلہ نہیں بلکہ ایک مسلسل سفر ہے، جس میں شخصیات اور مقامات اپنی چھاپ چھوڑتے ہیں۔

























Post your comments