اسرائیلی فوج مشرقِ وسطیٰ میں ایرانی حمایت یافتہ عسکریت پسند گروپ حزب اللّٰہ کو کمزور کرنے اور شام میں بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ کرنے کے بعد ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ کرنے کے لیے تیار ہے۔
اسرائیلی فوج کی جانب سے گزشتہ روز جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں حزب اللّٰہ کا کمزور ہو جانا اور شام میں بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ کرنے کا ایک موقع ہے۔بیان میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی فضائیہ ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ آور ہونے کے لیے اپنی بھرپور تیاریاں کر رہی ہے۔اسرائیلی فوج کا یہ بھی ماننا ہے کہ شام میں بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے اور لبنان میں حزب اللّٰہ کے کمزور ہونے کے بعد ایران خطے میں تنہا ہو گیا ہے اور ایسی صورتِ حال میں وہ اپنے دفاع کے لیے جوہری پروگرام کو مزید آگے بڑھا کر ایٹم بم تیار کر سکتا ہے۔دوسری جانب ایران نے ہمیشہ جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران کا خلائی پروگرام اور جوہری سرگرمیاں دونوں ہی خالصتاً شہری ضرورت کے لیے ہیں۔اس حوالے سے امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں اور آئی اے ای اے کا کہنا ہے کہ ایران کا 2003ء تک ایک منظم فوجی جوہری پروگرام تھا لیکن اس کے بعد اس نے اپنے جوہری پروگرام میں شہری ضرورت سے ہٹ کر ترقی جاری رکھی ہے۔علاوہ ازیں اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ ایران نے کبھی بھی اپنے جوہری ہتھیاروں کے پروگرام کو صحیح معنوں میں بند نہیں کیا اور ایران کے بہت سے جوہری مقامات بھاری قلعہ بند پہاڑوں کے نیچے دبے ہوئے ہیں۔
شام میں اسرائیلی دراندازی جاری ہے، اسرائیلی فوج دارالحکومت دمشق کےجنوب مغرب میں تقریباً 25 کلو میٹر تک پہنچ گئی ہے۔
سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کی رپورٹ کے مطابق شام میں بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے اب تک 310 اسرائیلی حملے ہو چُکے ہیں۔بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد ملک میں آنے والی عبوری حکومت نے اعلان کیا ہے کہ ملک میں معمول کی حکومتی سرگرمیاں 3 ماہ کے لیے معطل کر دی گئی ہیں، ایک عدالتی اور انسانی حقوق کمیٹی قائم کی گئی ہے جو آئینی جائز’ کے بعد ترامیم کرنے کی تجویز دے گی۔شام کی نئی قیادت نے ایک امریکی شہری کو رہا کر دیا اور دیگر لاپتہ افراد کی تلاش کے لیے امریکا کے ساتھ تعاون کا بھی اعلان کیا ہے۔دوسری جانب روس اس وقت شام کی اپوزیشن قیادت کے ساتھ براہِ راست رابطے میں ہے۔ شام کی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کی خلاف ورزیوں پر سیکریٹری جنرل اقوامِ متحدہ انتونیو گوتریس نے بھی تشویش کا اظہار کیا ہے۔دوسری جانب اس حوالے سے مشیرِ امریکی قومی سلامتی جیک سلیوان نے اسرائیلی حملوں کے دفاع میں کہا ہے کہ اسرائیلی افواج ممکنہ خطرات کو بے اثر کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔امریکی وزیرِ خارجہ انٹونی بلنکن نے شام کی موجودہ صورتِ حال کے پیشِ نظر اردن اور ترکیہ کا دورہ بھی کیا ہے۔اُنہوں نے ترک صدر رجب طیب اردوان پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی حمایت یافتہ کرد فورسز کو شام میں داعش کو شکست دینے کی اجازت دی جائے۔بین الاقوامی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق شام کی صورتِ حال پر اردن سربراہی اجلاس کی میزبانی کرے گا جس میں سعودی عرب، عراق، لبنان، مصر، یو اے ای، بحرین، قطر، ترکیہ، امریکا، یورپی یونین اور اقوامِ متحدہ کے اعلیٰ سفارت کار شرکت کریں گے۔
غزہ میں جاری اسرائیلی بربریت کے نتیجے میں 66 فلسطینی شہید ہو گئے۔
بین الاقوامی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی فوج نے گزشتہ روز غزہ میں بطور پناہ گاہ استعمال ہونے والے پوسٹ آفس کو نشانہ بنایا ہے جس کے نتیجے میں 30 نہتے فلسطینی شہید جبکہ 50 ہلاک ہو گئے۔اسرائیلی فوج نے گزشتہ شام نصیرات میں ایک پناہ گزین کیمپ پر بھی بم باری کی جس کے نتیجے میں 25 فلسطینی شہید ہوئے۔اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں فوری اور غیر مشروط جنگ بندی کی قرارداد کی اپیل کے چند گھنٹوں بعد گزشتہ روز شروع ہونے والی اسرائیلی فوج کی جارحیت کے نتیجے میں شہید ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد 66 ہو گئی ہے۔
Post your comments