شام میں بشار الاسد کے اقتدار کے ساتھ ان کے والد حافظ الاسد کا مجسمہ بھی زمین بوس کردیا گیا، جس کی تصاویر سامنے آگئی ہیں۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے کی جانب سے جاری تصاویر میں حافظ الاسد کے مجسمے کو دکھایا گیا ہے، جسے شامی شہریوں نے گرادیا ہے۔ کولاج میں موجود پہلی تصویر 2 دسمبر 2024 کو دمشق میں لی گئی جب حافظ الاسد مجسمہ اپنی اصل حالت میں قائم تھا، جبکہ دوسری تصویر میں 8 دسمبر 2024 کو دمشق کے باغیوں کے قبضے کے بعد زمیں بوس مجسمے کو ڈنڈے کی مدد سے توڑتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔خیال رہے کہ شامی حکومت مخالف باغیوں نے 8 دسمبر کو ایک برق رفتار کارروائی میں دمشق پر قبضہ کر لیا، جس کے نتیجے میں بشار الاسد ملک سے فرار ہوگئے اور شام میں بعث پارٹی کے پانچ دہائیوں پر مشتمل اقتدار کا اختتام ہوگیا۔
شام کی بدنام زمانہ صیدنایا ملٹری جیل سے ہولناک کہانیاں سامنے آگئیں۔
شام کے باغی افواج کی جانب سے صیدنایا ملٹری جیل سے قیدیوں کی رہائی کے بعد لاپتہ شامیوں کی تلاش جاری ہے۔ یہ جیل ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جانب سے ’’انسانی قتل گاہ‘‘ کے طور پر بدنام کی گئی تھی۔بشار الاسد کے دور حکومت میں سب سے زیادہ خوف زدہ مقام صیدنایا ملٹری جیل کے دروازے اب کھل چکے اور اس کے گارڈز فرار ہو چکے ہیں۔ گزشتہ روز جیل کے آس پاس والدین اور بچوں کی چیخیں گونج رہی تھیں جو اپنے پیاروں کو تلاش کر رہے تھے۔سوشل میڈیا پر وائرل مختلف ویڈیوز میں لوگوں کو جیل کی طرف جاتے دکھایا گیا، جو کبھی ’’مذبح خانہ‘‘ کے نام سے جانی جاتی تھی، تاکہ اپنے گمشدہ پیاروں کو ڈھونڈ سکیں۔ باغیوں کی تیز تر پیش قدمی کے بعد، دمشق کی فتح کے ساتھ، پورے ملک میں جیلوں کے گارڈز اپنی پوسٹیں چھوڑ گئے۔صیدنایا جیل سے دل دہلا دینے والے مناظر سامنے آئے ہیں، ہزاروں افراد جیل میں بنے گہرے تہہ خانوں میں قید تھے جہاں روشنی کی ایک کرن بھی نہیں پہنچ سکتی۔ قیدیوں کو بغیر کسی جرم کے سالہا سال قید تنہائی میں رکھا گیا، ان پر تشدد، بھوک اور غیر انسانی سلوک کی انتہا کر دی گئی، شام کے 1 لاکھ سے زیادہ گمشدہ افراد کے اہل خانہ اب جاننے کے لیے بےچین ہیں کہ ان میں سے کتنے زندہ ہیں۔شامی سول ڈیفنس (وائٹ ہیلمٹس) نے ایک بیان میں کہا کہ انہوں نے مزید قیدیوں کی تلاش کےلیے 5 خصوصی ٹیمیں تعینات کی ہیں جو ممکنہ خفیہ سیلز یا تہہ خانے کی چھان بین کر رہی ہیں۔امریکی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق سوشل میڈیا پر جاری مباحثوں میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ جیل کے مزید گہرے حصوں میں ہزاروں قیدی ہوسکتے ہیں۔ ان امیدوں کو دمشق کے گورنریٹ کی فیس بک پوسٹ نے تقویت دی، جس میں جیل کے عملے سے خفیہ دروازوں کے کوڈ فراہم کرنے کی اپیل کی گئی تاکہ ناقابل رسائی علاقوں تک پہنچا جا سکے۔تاہم، ایسوسی ایشن آف ڈیٹینیز اینڈ دی مسنگ ان صیدنایا جیل نے پیر کے بیان میں ان دعووں کو غلط قرار دیا اور کہا کہ تمام قیدی اتوار کی دوپہر تک رہا کیے جا چکے تھے۔منیر الفقیر، جو کہ ایک سابق صیدنایا قیدی اور کے بانی رکن ہیں، نے سی این این کو بتایا کہ جیل میں صرف ایک زیر زمین سطح پر سیلز موجود ہیں اور مزید خفیہ تہوں کی موجودگی کو ممکن نہیں سمجھتے۔انہوں نے کہا کہ باغیوں نے جب جیل پر قبضہ کیا تو انہوں نے سیکیورٹی کیمروں میں کچھ افراد کو ان سیلز میں دیکھا جنہیں ابتدا میں کھولا نہیں جاسکا کیونکہ وہ مضبوط دروازوں کے پیچھے تھے۔ قیدیوں کو اس وقت آزاد کروایا گیا جب مطلوبہ آلات فراہم کیے گئے، ان کے کے مطابق تقریباً 3,000 قیدی رہا کیے گئے۔وائٹ ہیلمٹس نے پیر کے روز مزید قیدیوں کے ممکنہ خفیہ علاقوں کی تلاش جاری رکھنے کی تصدیق کی، لیکن تاحال کسی کامیابی کی اطلاع نہیں ملی۔
Post your comments