class="post-template-default single single-post postid-7361 single-format-standard kp-single-standard elementor-default elementor-kit-7">

منتخب وزرائے اعظم کو گھر بھیجے جانے کا راستہ ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا، وزیراعظم

وزیراعظم شہباز شریف نے 26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کو قومی یکجہتی اور اتفاق رائے کی نہایت شاندار مثال قرار دیتے ہوئے کہاہے کہ 26ویں آئینی ترمیم سے محلاتی سازشوں کا عہد ختم اور میثاق جمہوریت کا ادھورا خواب پورا ہو گیا‘۔

شہباز شریف نے کہا کہ جمہوریت کیلئے منڈلاتے خطرات ختم ہو گئے ہیں‘ماضی میں محلاتی سازشوں کے ذریعے منتخب وزرائے اعظم کو گھر بھیجے جانے کا راستہ ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا ہے‘۔ان کاکہنا تھاکہ آئینی ترمیم پارلیمان کی بالادستی کے لیے سنگ میل ثابت ہو گی‘ملک کا مستقبل مضبوط اور محفوظ ہوگا، ترمیم سے لاکھوں لوگوں کو انصاف کے حصول میں آسانی ہوگی۔پیر کو قومی اسمبلی سے 26ویں آئینی ترمیم کی دوتہائی اکثریت سے منظوری کے بعد ترمیم کے حق میں ووٹ دینے والی جماعتوں کے سربراہان کی نشستوں پر جاکر ان کا شکریہ ادا کرنے کے بعد ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ آج ایک نیا سورج طلوع اور نئی صبح ہوئی ہے ۔ آج کسی منحرف رکن نے اس ترمیم کے حق میں ووٹ نہیں ڈالا، ہم پر طرح طرح کے الزامات لگائے گئے، آج طے ہو گیا کہ پارلیمان بالا دست ہے۔ماضی میں پانامہ کے نام پر اقامہ کے بنیاد پر ایک وزیراعظم کو نااہل قرار دیا گیا۔وزیراعظم نے کہاکہ بلاول بھٹو نے اس ترمیم کے لیے بے پناہ محنت کی، مولانا فضل الرحمان نے پاکستان کے وسیع تر مفاد میں اس پر اپنا نقطہ نظر دیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ اگر تحریک انصاف بھی اس ترمیم میں شامل ہوتی تو اچھا ہوتا۔

پاکستان تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن سے متعلق نظرثانی درخواست کے دوران چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ اور حامد خان کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا26ویں ترمیم کا علم نہیں، نہ بتائیں کیا سن سکتے ہیں اور کیا نہیں جس پر حامد خان نے چیف جسٹس سے مکالمہ کرتے ہوئےکہا میںایسے شخص کے سامنے دلائل نہیں دے سکتا جو ہمارے خلاف بہت متعصب ہو۔دوران سماعت پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان نے بینچ پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا موجودہ 3 رکنی بینچ کیس نہیں سن سکتا، سنی اتحاد کونسل کیس میں13 رکنی بینچ فیصلہ دے چکا ہے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا مخصوص نشستوں کے کیس میں نظرثانی زیر التوا ہے، کوئی ایسا فیصلہ نہیں دیکھیں گے جس پر نظرثانی زیر التوا ہے، آپ کیس چلانا چاہتے ہیں یا نہیں، آپ نے اپنی بات تو کرنی ہی کرنی ہے، جو کہنا ہے منہ پر کہنا چاہیے، ٹیلی ویژن پر بیٹھ نہیں کہنا چاہیے، ہمارے منہ پر جو مرضی کہیں، پیٹھ پیچھے نہیں، آپ نے دلائل کیوں نہیں دینے، جواب دیں؟ حامد خان نے کہا کہ مجھے دلائل نہیں دینے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا آپ کیس چلانا چاہتے ہیں یا نہیں؟ جس پر حامد خان بولے میں اب وہ کہہ دیتا ہوں جو کہنا نہیں چاہتا تھا، قاضی فائز عیسیٰ نے کہ منہ پر بات کرنے والےکو میں پسند کرتا ہوں۔دوران سماعت پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان نے بینچ پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا موجودہ 3 رکنی بینچ کیس نہیں سن سکتا۔

وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ ہمیں حکومت ملی تو آئینی ترمیم کو اڑاکررکھ دیں گے

‘عمران خان کی پیٹھ میں چھرا گھونپاگیا‘ آئینی ترمیم پر ووٹ دیا یا نہیں جو حکومتی صف میں کھڑا ہے اسے نہیں چھوڑیں گے‘ غدار غدار ہوتا ہے جو کہتے ہیں مجبوری تھی انہوں نے استعفیٰ کیوں نہیں دیا‘قوم تو ان سے حساب لے گی مگر ہم بھی ضرور حساب لیں گے، اگر سینئر ترین جج کو چیف جسٹس نہ بنایا گیا تو ہم دوبارہ نکلیں گے‘مرو یا مارو کا مرحلہ قریب ہے‘یا تو اپنا سرتڑوائیں گے یا اس غرور کے پہاڑ کو توڑیں گے‘سوشل میڈیا پر پوسٹ لگانے سے انقلاب نہیں آئے گا‘عملی قدم اُٹھانا ہوگا ۔ خیبرپختونخوا اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے علی امین گنڈاپورکا کہناتھاکہ ہمیں پتا چل گیا کہ کون ضمیر فروش تھا کون غدار تھا، کون بزدل تھاا ور کون وہ لوگ تھے جو نظریے کے لیے کھڑے ہیں۔جن جن لوگوں نے آئینی ترمیم کے لیے ووٹ دیا اور جن لوگوں نے ووٹ نہیں دیا مگر بانی چیئرمین کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے لیے ان کی صف میں کھڑے رہے رات تک ان سب کے نام آجائیں گے اور ہم ایسے کسی بندے کو نہیں چھوڑیں گے،غدار غدار ہوتا ہے چاہے وہ کسی مجبوری سے ہو یا پیسوں کی وجہ سے ہو‘ اگرکسی کا یہ خیال ہے کہ بڑے آرام سے ہضم کرلے گا تو اتنے آرام سے ہضم نہیں ہوگا ۔وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے کہا کہ جتنے فیصلہ ساز ادارے ہیں میں برملا ان سے کہہ رہا ہوں کہ ایسا نہیں ہوسکتا کہ آپ اس ملک میں جو کچھ بھی کریں آپ کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہوگا اور ایسا بھی نہیں ہوسکتا کہ آپ ہر ایک کا منہ بند کرلیں گے‘ہمارا پیچھے ہٹنا ان کی بھول ہے۔ہر وقت یہ ماحول رہے گا، یہ ان کی بھول ہے‘ان راستوں سے اجتناب کیا جائے، جو راستہ بنایا جارہا ہے وہ آپ کے گھر تک بھی جائے گا ۔جب حساب کی باری آتی ہے تو سب نس جاتے ہیںجنہوں نے یہاں رہنا ہے فیصلے انہیں کرنے دو۔

About the author /


Related Articles

Post your comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Newsletter