class="post-template-default single single-post postid-5867 single-format-standard kp-single-standard elementor-default elementor-kit-7">

سوشل میڈیا پر تنہا شخص کی جھوٹی خبر سے برطانیہ میں بدترین فسادات پھیلے،

 برطانیہ میں تین نوجوان لڑکیوں کے قتل کے بعد سوشل میڈیا پر جھوٹی خبر سےبد ترین فسادات پھیلے، لاہور سے گرفتار پاکستانی ملزم سے تحقیقات میں انکشاف ہوا ہے کہ ملزم نے یہ کارروائی تنہا کی تھی ، برطانیہ میں کی گئی تحقیقات کے نتیجے میں بھی یہ بات سامنے آئی ہے کہ جعلی خبروں کی وجہ سے برطانیہ میں ہنگامہ آرائی پھیلانے میں ملوث پاکستانی شہری فرحان آصف نے تن تنہا یہ کارروائی کی تھی۔ ملزم نے نہ صرف برطانوی عوام کو جھوٹی خبریں فراہم کیں بلکہ برطانوی نشریاتی ادارے کو بھی یہ باور کرانے میں کامیاب رہا کہ ویب سائٹ چینل تھری ناؤ کیلئے کام کرنے کیلئے مختلف ملکوں کے لوگوں کی ایک ٹیم تیار کی گئی تھی، اور یہ بھی کہ جعلی خبریں ایک اور ٹیم ممبر پھیلا رہا ہے، وہ نہیں۔ لاہور پولیس نے چند روز قبل آئی ٹی وی پر نشر ہونے والی ایک تصویر کو استعمال کرتے ہوئے فیس ٹریس ٹیکنالوجی کے ذریعے ملزم کا پتہ لگایا اور اسے گرفتار کیا۔ چونکہ ملزم کی طرف سے کیا گیا جرم ایف آئی اے کے دائرہ اختیار میں آتا تھا، اس لئے اسے بعد میں ایجنسی کے حوالے کر دیا گیا جس نے اس کے خلاف مقدمہ درج کرکے تفتیش شروع کر دی۔ فرحان کا معاملہ 29 جولائی کو اس وقت سامنے آیا جب برطانیہ کے ساحلی شہر ساؤتھ پورٹ میں تین لڑکیوں کو چاقو کے وار سے قتل کیا گیا۔ اس دن، ملزم نے اس عنوان کے ساتھ ایک مضمون پوسٹ کیا: ’’17 سالہ علی الشکاتی کو انگلینڈ کے ساؤتھ پورٹ میں چاقو مارنے کے واقعے کے سلسلے میں گرفتار کیا گیا ہے۔‘‘ اس خبر میں چھرا گھونپنے کے واقعے میں ایک مسلمان پناہ گزین کی گرفتاری کا جھوٹا دعویٰ تھا۔ یہ خبر سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر شیئر کی گئی جس کے نتیجے میں انتہائی دائیں بازو کے رجحانات رکھنے والے افراد نے ہنگامہ آرائی کی اور فسادات پھوٹ پڑے۔ تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ فرحان 31سالہ کمپیوٹر سائنس گریجویٹ ہے۔ وہ ایک ویب ڈویلپر ہے اور چینل تھری ناؤ ویب سائٹ چلاتا ہے۔ ملزم کا صحافت کا کوئی پس منظر نہیں۔ ملزم مغربی ممالک سے سنسنی خیز خبروں کو جمع کرکے خبریں چلاتا تھا اور یہ اس کیلئے کمائی کا ایک ذریعہ تھا کیونکہ امیر ممالک کی کلک ہٹس سے زیادہ آمدنی ہوتی ہے۔ وہ کبھی برطانیہ نہیں گیا۔ صرف ایک بار عمرے کیلئے سعودی عرب گیا۔ ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی میں کرائے کے مکان میں رہتا ہے۔ اس کا بھائی پولیس کانسٹیبل ہے۔ سنسنی خیز خبروں کے پلیٹ فارمز سے اسے ماہانہ تین سے چار لاکھ روپے ملتے ہیں۔ یہ باتیں اس نے تفتیش کاروں کو بتائیں ہیں۔ تاحال اس کے بینک اسٹیٹمنٹ پر توجہ مرکوز نہیں کی گئی۔ وہ مختلف سوشل میڈیا سائتس سے پیسے کماتا تھا اور اس کا یوٹیوب اور فیس بک اکاؤنٹ معطل کر دیا گیا ہے۔ تفتیش کے دوران فرحان نے بتایا کہ اس نے گوگل سے فیس بک آئی ڈی ’’کیون‘‘ خریدی اور اسے خبریں شیئر کرنے کیلئے استعمال کیا۔ اس نے یہ بھی اعتراف کیا کہ بی بی سی کے ساتھ بات چیت کیلئے اس کا استعمال اپنی طرف سے توجہ ہٹانے کیلئے کیا۔ اس نے تفتیش کاروں کو مزید بتایا کہ اس نے یہ خبر ایک اور ویب سائٹ سے لی تھی اور اسے ٹویٹر اکاؤنٹ پر شیئر کیا جسے برطانیہ میں مقیم ایک خاتون چلا رہی ہے۔ اس خاتون کو بھی گرفتار کر لیا گیا ہے۔ فرحان تیسرا شخص تھا جس نے اپنی ویب سائٹ اور سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے ذریعے خبریں شیئر کیں۔جیو نیوز پر پروگرام آج شاہزیب خانزادہ میں میزبان شاہزیب نے اپنا تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ برطانیہ میں گزشتہ ماہ تیرہ سال کے بدترین فسادات اور افرا تفری کے واقعات کے بعد وہاں کی انتظامیہ ان فسادات میں ملوث افراد کی گرفتاری اور ان کے فوری ٹرائل کے ساتھ ساتھ ان فسادات کی جڑ تک پہنچنے کی کوشش کر رہی ہے جو انتیس جولائی کو ساؤتھ پورٹ میں ہونے والے واقعہ کے بعد مس انفارمیشن اور فیک نیوز کی وجہ سے پھیلے جس میں اہم کردار ایک نیوز ویب سائٹ نے ادا کیا جس کے تانے بانے پاکستان سے بھی جوڑے جارہے ہیں، انتیس جولائی کو شمالی انگلینڈ کے علاقے ساؤتھ پورٹ میں ایک تقریب کے دوران ایک سترہ سالہ نوجوان نے چاقو کے وار سے تین کم سن بچیوں کو قتل جبکہ دس افراد کو زخمی کر دیا تھا۔ اس واقعہ کے کچھ دیر بعد پولیس نے ملزم کو گرفتار کر لیا لیکن اس واقعہ کو سوشل میڈیا پر غلط رنگ دیتے ہوئے اسے ایک مسلمان پناہ گزین کے ہاتھوں قتل کا رنگ دے دیا گیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے چینل 3 ناؤ نامی ایک ویب سائٹ نے غلط خبر کو مزید ہوا دیتے حملہ آور کو ایک فرضی مسلمان نام بھی دے دیا اور خبر میں لکھا کہ وہ شخص گزشتہ سال ہی کشتی کے ذریعے برطانیہ آیا تھا اور برطانیہ انٹیلی جنس ایجنسی کی واچ لسٹ پر تھا یہ ایک خبر برطانیہ مسلم مخالف مظاہروں اور اشتعال انگیزی کے واقعات کی وجہ بن گئی جس میں سیکڑوں افراد کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔

About the author /


Related Articles

Post your comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Newsletter