دُنیا کی تاریخ میں بے شمار جنگیں اور جھڑپیں ہوئیں، لیکن پاک بھارت فضائی معرکے کے بعد اصل سوال یہ نہیں تھا کہ کون جیتا یا کون ہارا، بلکہ یہ تھا کہ کتنے جہاز گرے۔ پاکستان نے دُنیا کو دکھا دیا کہ اُسکے شاہین آسمان پر دُشمن کو کس طرح حیران کرتے ہیں، اور بھارت نے حسبِ روایت اپنی ناکامی کا مظاہرہ کیا۔ مگر اصل مزاحیہ تماشہ اُس وقت شروع ہوا جب ٹرمپ صاحب نے جہازوں کی گنتی کو ریاضی کا کھیل بنا دیا۔ کبھی پانچ، کبھی چھ، کبھی سات، اور اُس سے بھی زیادہ کا دعویٰ۔ یوں لگتا تھا جیسے یہ جھڑپ نہیں بلکہ روزانہ کا حسابی پرچہ تھا، جس میں ہر دن نیا جواب آ رہا ہے۔
پاکستان نے بڑے فخر سے بتایا کہ دُشمن کے جہاز زمین بوس ہوئے اور بھارتی پائلٹ اپنی ہی ناکامی کا نمونہ بن گئے۔ بھارت نے حسبِ روایت کہا کہ ایک بھی جہاز نہیں گرا۔ لیکن دُنیا نے دیکھا کہ بھارتی دعوے صرف کاغذی تھے۔ ٹرمپ صاحب نے معاملے کو مزید دلچسپ بنا دیا۔ وہ کبھی بڑے اعتماد سے اعلان کرتے ہیں کہ ’’چار یا پانچ جہاز گرے‘‘، اگلے دن خوشی سے کہتے ہیں ’’ نہیں، چھ تھے‘‘، پھر اچانک بولتے ہیں ’’سات گرائے گئے‘‘، اور پھر دعویٰ کرتے ہیں ’’ 150ملین ڈالرز کے جہاز گرائے گئے، یہ تعداد سات یا اُس سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے‘‘۔ اب سوال یہ ہے کہ نصاب میں کون سا نمبر لکھا جائے۔
میڈیا کا حال بھی کسی سرکس سے کم نہیں۔ پاکستانی چینلز پر اینکر حضرات بڑے فخر سے بتا رہے ہیں کہ ’’چھ جہاز گرے‘‘، بھارتی چینلز پر اینکر حضرات چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں ’’کوئی جہاز نہیں گرا‘‘، اور امریکی میڈیا پر ٹرمپ صاحب مسکرا کر اعلان کر رہے ہیں ’’پانچ جہاز گرے تھے‘‘، اگلے دن کہتے ہیں ’’چھ تھے‘‘، پھر یہ ’’سات‘‘ ہو جاتے ہیں اور معاملہ ’’آٹھ‘‘ تک پہنچ جاتا ہے۔ یہ منظر دیکھ کر لگتا ہے کہ یہ جنگ نہیں بلکہ عالمی سطح پر ایک مزاحیہ مقابلہ ہے کہ کون سا چینل سب سے زیادہ شور مچا سکتا ہے اور کون سا صدر سب سے زیادہ نمبر بدل سکتا ہے۔
اب نصاب کمیٹی کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ نئے ایڈیشن کی کتاب میں کون سا نمبر لکھا جائے۔ اگر پانچ لکھیں تو کل کو ٹرمپ صاحب کہیں گے ’’غلط‘‘، اگر چھ لکھیں تو اگلے دن وہ بولیں گے ’’نہیں، سات تھے‘‘، اور اگر سات لکھیں تو پرسوں وہ اعلان کر دیں گے ’’اصل میں آٹھ تھے‘‘۔ اُساتذہ سوچ رہے ہیں کہ شاید امتحان کے پرچے میں یہ نوٹ دینا پڑے: ’’براہ کرم ٹرمپ صاحب کے تازہ ترین بیان کی روشنی میں جواب دیں‘‘۔ یوں مطالعہ پاکستان کے ساتھ ساتھ ریاضی کی کتاب میں بھی ایک نیا باب شامل کرنا پڑے گا: ’’ٹرمپ کی گنتی کے سوالات‘‘۔
طلباء کے لیے اصل مشکل یہ ہے کہ امتحان میں اگر سوال آ گیا کہ ’’پاکستان نے کتنے بھارتی جہاز گرائے؟‘‘ تو جواب میں کون سا نمبر لکھیں۔ پانچ لکھیں تو اُستاد ناراض، چھ لکھیں تو کتاب ناراض، سات لکھیں تو ٹرمپ خوش، اور آٹھ لکھیں تو شاید اگلے دن پھر غلط ہو جائے۔ اِس اُلجھن نے پڑھائی کو بھی مزاحیہ بنا دیا ہے۔ اب مطالعہ پاکستان کے ساتھ ساتھ ریاضی کے پرچے میں بھی یہ سوال شامل ہو سکتا ہے کہ ’’ٹرمپ صاحب کے مطابق جہازوں کی تعداد کیا ہے؟‘‘۔
پاکستانی عوام کے لیے اصل خوشی یہ ہے کہ دشمن کو شکست ہوئی۔ بھارتی پائلٹ اپنی ناکامی کا اعتراف کر بیٹھے۔ بھارت چاہے جتنا انکار کرے، حقیقت یہ ہے کہ اُس کے جہاز گرے اور بھارتی فضائیہ کو منہ کی کھانی پڑی۔ ٹرمپ صاحب کے انکشافات سے بھارتی مزید جگ ہنسائی ہوئی۔ پاکستان نے دُنیا کو دکھا دیا کہ اُس کے شاہین کس طرح دشمن کو آسمان پر بھی اور زمین پر بھی ناکام کرتے ہیں۔ لیکن ٹرمپ صاحب نے اِس حقیقت کو ریاضی کے سوال میں بدل دیا، اور اب دُنیا سوچ رہی ہے کہ یہ جھڑپ تھی یا حساب کا پرچہ۔
پاک بھارت جھڑپ کا نقشہ تو تاریخ میں محفوظ ہو گیا ہے، لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس کی گنتی کون کرے۔ پاکستان کہتا ہے چھ، بھارت کہتا ہے صفر، اور ٹرمپ کی تعداد پانچ سے شروع ہوئی اور اب آٹھ تک جا پہنچی۔ دُنیا ہنستے ہوئے سوچ رہی ہے کہ یہ جنگ تھی یا ریاضی کا سوال۔ اور اگر ٹرمپ صاحب کو زیادہ وقت ملا تو شاید وہ جہازوں کی تعداد کو سو تک پہنچا دیں۔ یوں لگتا ہے کہ مطالعہ پاکستان کے اگلے ایڈیشن کا نام بدل کر ’’مطالعہ ٹرمپ‘‘ رکھنا پڑے گا، تاکہ طلباء سکون سے پڑھ سکیں اور ہر روز نئی گنتی کے ساتھ امتحان کی تیاری کر سکیں۔

























Post your comments