class="wp-singular post-template-default single single-post postid-16841 single-format-standard wp-theme-resolution eio-default kp-single-standard elementor-default elementor-kit-7">

اخوند سالاک کا اوگے نظام: جبری محصول یا رضاکارانہ عطیہ؟ تحریر و تحقیق: نجیم شاہ (تاریخی زاویئے)

تاریخ صرف واقعات کا مجموعہ نہیں، بلکہ نظریات، مفادات اور بیانیوں کی کشمکش بھی ہے۔ جب ہم مغلیہ سلطنت کی تحریری تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں، تو ہمیں اکثر وہ زاویہ نظر آتا ہے جو دربار کے مفادات سے جڑا ہوتا ہے۔ ایسی ہی ایک مثال افغان مغل جنگ کے دوران بہاکو خان اور اخوند سالاک کی جدوجہد کو لے کر پیش کی گئی ہے۔ مغلیہ مؤرخین کا دعویٰ ہے کہ ان دونوں نے ایک لشکر تیار کیا جو مغلیہ چوکیوں پر حملہ آور ہوتا اور جہاں عملداری قائم کرتا، وہاں کسانوں سے زبردستی محصول وصول کرتا۔ لیکن جب ہم اس دعوے کو اخوند سالاک کے مالیاتی اور سماجی نظام کی روشنی میں دیکھتے ہیں، تو یہ بیانیہ نہ صرف کمزور پڑتا ہے بلکہ تاریخی بددیانتی کا مظہر بھی بن جاتا ہے۔

محمد اکبر شاہ المعروف اخوند سالاک کا شمار اُن بزرگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے شمالی پاکستان کے مختلف علاقوں میں اسلام کی ترویج کے لیے  نمایاں کردار ادا کیا۔ اُنہوں نے ’’اوگے‘‘ کے نام سے ایک مالیاتی نظام قائم کیا جو قبائلی معاشرے میں ایک انقلابی قدم تھا۔ یہ نظام نہ صرف دینی تعلیم اور جہادی سرگرمیوں کے لیے وسائل فراہم کرتا تھا بلکہ معاشرتی فلاح و بہبود کا بھی ضامن تھا۔ ’’اوگے‘‘ کوئی جبری ٹیکس نہیں تھا، بلکہ ایک رضاکارانہ عطیہ تھا، جس میں صرف وہ افراد شامل ہوتے تھے جو مالی طور پر اس کے متحمل تھے۔ غریب اور نادار افراد کو اس بوجھ سے مکمل طور پر مستثنیٰ رکھا گیا۔

اس نظام میں دولت کا معیار بیلوں کی جوڑی یا ذاتی اراضی تھا۔ جن کے پاس یہ وسائل ہوتے، وہی ’’اوگے‘‘ دینے کے پابند ہوتے۔ یہ اُصول نہ صرف سماجی انصاف کو فروغ دیتا تھا بلکہ ایک منصفانہ نظام کی بنیاد بھی رکھتا تھا، جس میں امیر طبقے پر اجتماعی فلاح کی ذمہ داری عائد کی جاتی تھی۔ اِس کے برعکس، مغلیہ سلطنت اور بعد ازاں انگریز سرکار کا مالیاتی نظام ایک جبری ٹیکس پر مبنی تھا، جس میں کسانوں سے زمین کی پیداوار کا بڑا حصہ چھین لیا جاتا اور عدم ادائیگی پر جرمانے اور سزائیں دی جاتیں۔ یہ ایک استحصالی نظام تھا جس کا مقصد صرف حکومتی خزانے کو بھرنا تھا، جبکہ اخوند سالاک کا نظام اخلاقی فریضے پر مبنی تھا۔

مغلیہ دعوے کے مطابق اخوند سالاک کے زیر اثر لشکر کسانوں سے زبردستی محصول وصول کرتا تھا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ’’اوگے‘‘ کا نظام رضاکارانہ تھا اور اس میں عطیہ دینے والے کی نیت اور سخاوت کو مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ اِس کے ذریعے جمع ہونے والا اناج اور وسائل نہ صرف جہادی سرگرمیوں کی ضروریات پوری کرنے میں استعمال ہوتے بلکہ دینی تعلیم، مدرسوں کے قیام اور مساجد کی تعمیر جیسے نیک مقاصد میں بھی صرف کیے جاتے۔ یہ نظام قانونی جبر کے بجائے ایک اخلاقی فریضہ تھا، جو سماجی انصاف اور باہمی تعاون کو فروغ دیتا تھا۔

اخوند سالاک کی قیادت میں یہ نظام ایک مربوط سماجی ڈھانچے کی بنیاد بنا۔ اُنہوں نے اپنے پیروکاروں کو ترغیب دی کہ وہ اپنی دولت اور وسائل کو اجتماعی بھلائی کے لیے استعمال کریں۔ یہ نظام نہ صرف پشتون معاشرے بلکہ غیر پشتون علاقوں میں بھی باہمی تعاون، سخاوت اور اجتماعی شعور کو فروغ دینے کا ذریعہ بنا۔ اُن کی قیادت میں نہ صرف مذہبی تعلیمات کی اشاعت ہوئی بلکہ معاشرتی اصلاحات کا بھی آغاز ہوا۔ یہ وہ پہلو ہے جسے مغلیہ مؤرخین نے نظرانداز کیا یا دانستہ طور پر مسخ کیا۔

مغلیہ بیانیہ اخوند سالاک کی تحریک کو صرف عسکری جارحیت کے تناظر میں دیکھتا ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اُن کی تحریک ایک ہمہ جہت اصلاحی تحریک تھی۔ اُنہوں نے جہادی سرگرمیوں اور دینی تعلیمات کی اشاعت کے لیے جو خدمات انجام دیں، وہ کسی بھی عسکری مہم سے کہیں زیادہ اہم اور دیرپا تھیں۔ اُن کی بصیرت نے نہ صرف ایک مضبوط عسکری طاقت کو جنم دیا بلکہ ایک فلاحی اور معاشرتی انصاف کے نمونے کے طور پر بھی اُبھری۔

مغلیہ دعوے کا اگر باریک بینی سے تجزیہ کیا جائے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ اس میں اخوند سالاک کے ’’اوگے‘‘ نظام کو دانستہ طور پر غلط رنگ میں پیش کیا گیا۔ مغلیہ مؤرخین نے اس رضاکارانہ عطیہ کو جبری محصول بنا کر دکھایا، تاکہ عوامی حمایت یافتہ تحریک کو بدنام کیا جا سکے۔ حقیقت یہ ہے کہ ’’اوگے‘‘ نہ صرف مالیاتی انصاف پر مبنی تھا بلکہ اس میں اخلاقی شعور اور دینی خدمت کا جذبہ بھی شامل تھا۔ یہ نظام کسی ریاستی جبر کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ ایک روحانی قیادت کے تحت قائم ہوا، جس میں امیر طبقہ اپنی خوشی سے حصہ لیتا اور غریب طبقہ مکمل طور پر محفوظ رہتا۔

اخوند سالاک کا ’’اوگے‘‘ نظام ایک ایسی مثال ہے جس نے دینی شعور، عسکری خود انحصاری اور سماجی مساوات کو یکجا کیا۔ تاریخ کو اگر انصاف کی نظر سے دیکھا جائے تو اخوند سالاک اور بہاکو خان کی جدوجہد ایک عوامی بیداری کی تحریک تھی، نہ کہ سلطنت کے خلاف محض عسکری بغاوت۔ آج جب ہم تاریخ کے اوراق پلٹتے ہیں، تو ہمیں ان شخصیات کو اُن کے اصل مقام پر رکھنا ہوگا — وہ مقام جو مغلیہ دربار کی تحریروں نے چھپانے کی کوشش کی۔ یہ وقت ہے کہ ہم تاریخ کو درباری بیانیوں سے آزاد کریں اور اُن سچائیوں کو اجاگر کریں جو عوام کے دلوں میں زندہ رہیں، چاہے کاغذوں پر مٹا دی گئی ہوں۔

About the author /


Related Articles

Post your comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Newsletter