class="wp-singular post-template-default single single-post postid-16831 single-format-standard wp-theme-resolution eio-default kp-single-standard elementor-default elementor-kit-7">

خواتین اور خلع کا حق سپریم کورٹ کا تاریخ ساز فیصلہ ظفر محمد خان

ہم میں سے بہت سارے لوگ بچیوں کے والدین ہیں اور بد قسمتی سے پاکستان میں خاص طور پر اور عالم اسلام میں عام طور پر خواتین کے ساتھ طلاق کے حوالے سے دہرا معیار قائم ہے شوہر تو کسی بھی وقت اپنی بیوی کو طلاق دے سکتا ہے کسی بھی وجہ سے طلاق دے سکتا ہے یا طلاق نہ بھی دے تو دوسری شادیاں کر سکتا ہے لیکن بیوی کے پاس ایسا کوئی حق نہیں ہے اسانی کے ساتھ جو مرد سے جدا کر سکے
اس کے لیے خلع کا قانون موجود ہے لیکن خلع کا مقدمہ دائر ہونا اور اس کے منظور ہونے میں اکثر دس  سال بھی لگ جایا کرتے ہیں اور پاکستان میں عدالتوں کا سست رفتاری سے کام کرنا خاص طور پر عائلی قوانین میں ایک عام سی بات ہے اور یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ عام طور پر خواتین کو اس سلسلے میں شرم حیا اور طعنہ زنی کا شکار بھی ہونا پڑتا ہے اور یہ اس سے بھی زیادہ روہانسہ بات یہ  ہے کہ خلع کے بعد ان کی زندگی کر دی جاتی ہے
گزشتہ ہفتے سپریم کورٹ میں جسٹس نعیم اختر افغان کے ساتھ جسٹس محترمہ عائشہ ملک نے ایک انقلابی اور تاریخ ساز فیصلہ کیا ہے جس میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ عورت کے اوپر ظلم صرف مارنے پیٹنے سے ہی نہیں ہوتا بلکہ اس کو نفسیاتی طور پر تنگ کرنے اس کے ساتھ ایسا برا برتاؤ کرنے جس سے اس کو ذہنی اذیت ہو یہ بھی ظلم کی شکل میں ہی دیکھا جائے گا
عام طور پر ایسی خواتین جن کو ذہنی اذیت ہوتی ہے الفاظوں میں ظلم ہوتا ہے لفظوں میں اس کی برائیاں  کی جاتی ہیں لیکن وہ اس کو ظلم ثابت کر کے عدالت نہیں جا سکتی لیکن سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے ذریعے ایک عورت کے اوپر یہ تمام خاموش قسم کے ظلم جو طبعی طور پر نظر نہیں اتے وہ بھی ظلم قرار پائیں گے ، نیچے میں کوشش کرتا ہوں کہ اس فیصلے کی باریکیاں اپ کے سامنے پیش کر سکوں ۔میرا یہ مشورہ ہے کہ اج ہمیں اپنی بیٹیوں کو اس فیصلے کی ایک کاپی ضرور دینی چاہیے تاکہ ان کو پاکستان میں اپنے حقوق کے بارے میں صحیح علم ہو سکے اور وہ شادی کے بعد خود کو قانونی طور پر بھی مضبوط سمجھ سکیں
یہ درخواست 27 مئی 2024 کے پشاور ہائی کورٹ کے حکم کے خلاف ہے جس کے تحت درخواست گزار خاتون کی رٹ مسترد ہوئی خاتون کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ اس کی موکلہ  نے نکاح کے خاتمے کی استدعا کی تھی ۔جس کی وجوہات میں ظلم خرچ نہ دینا اور دوسرا نکاح شامل تھا جج فیملی کورٹ پشاور اور ایڈیشنل جج نے درخواست گزار خاتون کی باتوں اور دلائل کو نظر انداز کیا ۔اور اس خاتون کی رضامندی کے بغیر خلع کا حکم دے دیا یوں اسے مہر سے محروم کر دیا گیا جس میں اسلام اباد میں 200 گز کا پلاٹ 30 تولے سونا اور پانچ لاکھ روپے شامل تھے
ان سب کو مجموعی طور پر مہر کہا گیا وکیل نے کہا کہ عدالتوں کا فیصلہ ریکارڈ کے خلاف ہے جو کسی قانونی جواز کے بغیر بدنامی کا باعث بنا ۔اور اس سے درخواست گزار خاتون کی عزت متاثر ہوئی مخالف فریق کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ خاتون نے ظلم یا خرچ یا دوسری شادی کی وجہ سے نہیں بلکہ صرف خلع کے لیے مقدمہ دائر کیا تھا ۔
وہ خاتون کہتی رہی کہ شوہر کے ساتھ اسے نہیں رہنا وکیل نے کہا کہ عدالت میں ظلم کا کوئی ثبوت نہیں دیا گیا اور خاتون خود اپنے کریئر کے لیے گھر چھوڑ گئی تھی جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ نافرمان تھی اور گھر میں رہنے کی خواہش مند نہیں تھی مخالف وکیل نے کہا کہ شوہر نے بہت درگزر کیا اور اس نے نکاح کو بچانے کی بھرپور کوشش کی تھی اور اس نے ازدواجی رشتے کی پاسداری نہیں کی سپریم کورٹ نے پھر اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ وکلا کے دلائل کے تناظر میں ہمارے سامنے دو بنیادی مسائل غور کے لیے موجود ہیں پہلا یہ کیونکہ فیملی کورٹ خود بیوی کی واضح رضامندی کے ساتھ  خلع اس عورت کو دے سکتی ہے جو نکاح ختم کرنے کی درخواست کرتی ہے
 قانون کے تحت نکاح ختم کرنے کے لیے ثبوت کا کیا معیار درکار ہوتا ہے خاص طور پر ظلم دوسری شادی اور خرچ نہ دینے جیسے الزامات کے معاملے میں ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ فیملی کورٹ نے کیس کو کس انداز میں نمٹایا اور شواہد کا جائزہ کیسے لیا کیونکہ فیصلے میں استعمال ہونے والی زبان کے بارے میں درخواست گزار خاتون کی  عزت کو نقصان پہنچا اور داغ لگا اس مقدمے کے حقائق یہ  ہیں کہ خاتون اور مرد کے درمیان نکاح 31 مئی 2015 کو ہوا تھا نکاح نامے کے مطابق درخواست گزار خاتون کو پلاٹ سونا اور رقم مہر کے طور پر ملی اور 10 ہزار روپے ماہانہ خرچ مقرر کیا گیا رخصتی نو اپریل 2016 کو ہوئی اور چار جولائی 2017 کو بیوی نے نکاح ختم کرنے کا مقدمہ دائر کر دیا
2016 فیملی کورٹ نے 22 جولائی 2019 کو خلع  دے دی اور عدت کے عرصے کا خرچ 30 ہزار روپے مقرر کیا اور خلع کے بدلے سونا اور پلاٹ واپس کرنے کی ہدایت دے دی ۔ ہائی کورٹ نے  خاتوں پر ظلم نہیں  قرار دیا کہ رقم شوہر کو  ادائیگی نہیں کرنی تھی
 بیوی  کی اپیل 12 اکتوبر 2020 کو مسترد ہوئی اور ہائی کورٹ میں درخواست 27 مئی 2022 کو خارج کر دی گئی اور فیصلہ برقرار رکھا گیا سپریم کورٹ نے فیصلے میں مزید لکھا ہے کہ ہم سب سے پہلے ظلم کی بنیاد پر غور کرتے ہیں جو نکاح ختم کرنے کی ایک قانونی وجہ کے طور پر پیش کی گئی ہے تاکہ معاملہ واضح ہو پارلیمنٹ نے ظلم کی تعریف قانون میں بیان کرنے کی کوشش نہیں بلکہ مختلف مثالیں دے کر اس کی نوعیت اور دائرہ کار کو واضح کیا ہے یہ
 مثالیں ظاہر کرتی ہیں کہ ظلم جسمانی تشدد سے لے کر ذہنی  اذیت کو بھی تصور کیا جانا چاہئے

مداخلت یا دوسری شادی میں ناانصافی برتنا وغیرہ قانون میں دی گئی مثالیں حتمی نہیں ہیں بلکہ رہنمائی کے لیے وضاحت کے طور پر دی گئی ہیں تاکہ عدالتوں کو گنجائش حاصل رہے کہ وہ ظلم کی مختلف صورتوں کو پہچان سکیں اور ظلم  ثابت ہونے کی صورت میں انصاف مہیا کر سکیں لہذا ظلم صرف جسمانی نقصان تک محدود نہیں ہے اور عورت کے لیے عزت اور سلامتی بھی شامل کرتا ہے تاکہ انصاف کا دائرہ وسیع  رہے اور ہر معاملے کی ہر پہلو سے سماعت ہو سکے لہذا ظلم میں جسمانی نقصان بھی شامل ہے جیسے تھپڑ مارنا مارپیٹ کرنا یا حملہ کرنا اور ذہنی ظلم بھی شامل ہے جیسے تحقیق امیز رویہ رکھنا گالم گلوچ یا بلا وجہ بدکاری کے الزامات لگانا اسی طرح جذباتی ظلم جیسے بے رخی برتنا یہ لاپرواہی کرنا اور بعض اوقات گھریلو کشیدگی یا سسرالیوں کا ظالمانہ رویہ جس پر شوہر خاموش رہے یا اس کی حوصلہ افزائی کرے یہ بھی ظلم کے زمرے میں اتا ہے اور عدالتوں نے یہ بھی قرار دیا ہے کہ ظلم الگ الگ حرکات پر مشتمل ہو سکتا ہے جو بظاہر ایک دوسرے سے جڑی ہوئی نہ ہو مگر مجموعی طور پر نقصان پہنچائیں اور عورت کے لیے نکاح میں رہنا ناقابل برداشت بنا دے عدالتوں نے ظلم کی تعریف کو وسیع کرتے ہوئے کہا ہے کہ ظلم میں ذہنی اذیت دینا گالم گلوچ کرنا یا جھوٹ  کے ساتھ گھر میں رہنا ناممکن منا دے وہ بھی ظلم کے زمرے میں اتا ہے ہماری عدالتوں نے ظلم کو ایسے رویے کے طور پر بیان کیا ہے جو صرف جسمانی تشدد تک محدود نہیں ہے بلکہ ذہنی اور جذباتی اذیت ی نہیں بلکہ ظلم ہر ایسے رویے پر مشتمل ہو سکتا ہے جو عورت کو دکھ مایوسی اعتماد کی کمی سے دوچار کر دے یا اس کی خودداری کو مجروح کر دے خواہ وہ کسی عمل پر مشتمل ہو یا کسی اشارے پر الفاظ یا خاموشی اور نظر اندازی پر بھی مبنی ہو ایک حالیہ عدالت ہے اور ارادی یا غیر ارادی منصوبہ بندی کے ساتھ یا بغیر منصوبہ بندی کے بھی ہو سکتا ہے اگر اثرات اتنے تکلیف دہ  شدید اور سخت ہوں کہ ازدواجی زندگی گزارنا ناممکن ہو جائے تو یہ ظلم کہلائے گا عدالت میں زور دیا کہ رویے اور اس کے اثرات کو دیکھنا ضروری ہے کیونکہ نکاح باہمی اعتماد عزت محبت اور شفقت پر قائم رشتہ ہے جس کے ٹوٹنے پر عدالت کو جانچنا چاہیے کہ کیا عورت کے لیے وہ رویہ ناقابل برداشت تھا جس سے تنگ ا کر وہ نکاح برقرار رکھنے کی خواہش نہیں رکھتی عدالتی نظر  سے واضح ہے کہ فیصلہ کن نقطہ یہ ہوتا ہے کہ شوہر کے رویے   شدید ہو کہ وہ اس کے ساتھ رہنا ناممکن سمجھے اور یہی ظلم کہلائے گا اگر عدالت یہ دیکھے کہ ظلم جسمانی ذہنی جذباتی یا گھریلو ماحول سے متعلق ہے تو اسے تمام پہلوؤں کے ساتھ جانچنا ضروری ہے اج کے بین الاقوامی معیار کے مطابق” کنونشن ان دی المنیشن اف ال فارمیشن اگینسٹ وومن ” کو ہدایت دیتا ہے کہ نکاح اور خاندانی زندگی میں ہر قسم کا امتیاز ختم کیا جائے اور اس کی عمومی سفارشات یہ واضح کرتی ہیں کہ صنفی بنیادوں پر تشدد جس میں گھریلو ظلم بھی شامل ہے امتیاز کی ایک شکل ہے جس کے خاتمے کے لیے موثر اقدامات ضروری ہیں جن میں طلاق علیحدگی اور تحفظ کے احکامات جیسے قانونی ذرائع شامل ہیں

قارئین کرام یقینی طور پر یہ مضمون طویل ہو گیا ہے میں بھی اس میں اور بھی کچھ کہنا چاہتا ہوں اگر موقع ملا تو شاید اس کی دوسری قسم بھی میں بناؤں لیکن میں پھر یہ کہتا ہوں کہ ہماری خواتین ہماری بچیوں کو ہماری بہنوں کو اس بات کا ضرور علم ہونا چاہیے کہ قانون اب بدل رہے ہیں ان کے اوپر شادی کے بعد ایسا ہرگز نہیں ہے کہ جہاں ان کا ڈولی گئی ہے وہاں سے ان کا جنازہ ہی نکلے گا وہ اگر اپنے اپ کو وہاں پر تنہا محسوس کریں وہاں اپنے اپ کو جذباتی طور پر ظلم کا شکار محسوس کریں چاہے ان کو کوئی چانٹا نہ مارے چاہے ان کو کوئی ڈنڈے سے نہ مارے لیکن اگر کوئی انہیں ذہنی اذیت دیتا ہے تو ان کو پورا حق ہے کہ وہ اس نکاح کو تنسیخ کرنے کے لیے عدالت میں جائیں اور عدالت سپریم کورٹ کے موجودہ فیصلے کے بعد اس بات کی پابند ہے کہ ان کی ذہنی اذیت کو بھی ظلم کی بنیاد پر سمجھیں اور فیصلہ کریں ۔

About the author /


Related Articles

Post your comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Newsletter