یوسف ؑ کی کہانی ایک خواب سے شروع ہوتی ہے، مگر المیہ یہ ہے کہ خواب توڑنے والے ہمیشہ اپنے ہی نکلتے ہیں۔ اُس وقت بھائیوں نے کنویں میں ڈالا، آج معاشرہ خود کنواں بن چکا ہے — دفاتر، عدالتیں، میڈیا، سیاست، سبھی سچ کو دفن کرنے کی جگہیں ہیں۔ حسد کوچالاکی، جھوٹ کو دانائی، اور سازش کو کامیابی سمجھا جاتا ہے۔ چہرے اب برانڈڈ نقابوں میں چھپے ہیں، اور ہر سچ بولنے والا باغی ٹھہرتا ہے — تنہا، بے بس، مگر باوقار۔ فرق صرف زمانے کا ہے، زہر وہی ہے، چالیں وہی ہیں، اور کنویں اب ڈیجیٹل ہو چکے ہیں۔
یہ کہانی صرف جذباتی غداری کی داستان نہیں، بلکہ تہمت کا دہکتا ہوا کوڑا ہے جو معاشروں کے چہرے پر پڑتا ہے۔ ایک جھوٹ، ایک الزام، ایک سازش — اور پھر قید۔ کیا یہ آج کے معاشرے کی چلتی پھرتی تصویریں نہیں؟ آج بھی جو سچ بولتا ہے وہ رسوا ہوتا ہے، جو جھوٹ بولتا ہے وہ لیڈر بنتا ہے۔ جس کا دامن صاف ہو، اُسی کو صفائی دینا پڑتی ہے۔ اور جو گندا ہو، وہی اونچی کرسی پر بیٹھ کر دُوسروں کو عزت کا لیکچر دیتا ہے۔ یوسف ؑ قیدی تھے، مگر وقار کے ساتھ۔ ہم آزاد ہیں، مگر بے وقار۔ فرق نیت اور کردار کا ہے۔
پھر آتی ہے صبر کی وہ گھڑی جسے ہم نے بزدلی کا نام دے دیا ہے۔ یوسفؑ نے صبر کیا — نہ شکوہ، نہ شکایت، نہ بد دعا۔ ہم ہوتے تو سوشل میڈیا پر پوسٹیں لگا رہے ہوتے، وائرل ویڈیوز بنا رہے ہوتے، اور اللہ سے پہلے دُنیا سے انصاف مانگ رہے ہوتے۔ یوسف ؑ جانتے تھے کہ وقت لگتا ہے، مگر انصاف ضرور ہوتا ہے — بشرطیکہ اللہ تعالیٰ کو ہی اصل وکیل، اصل جج سمجھا جائے۔ آج صبر کو کمزوری، اور معافی کو بے عزتی سمجھا جاتا ہے۔ لوگ دلوں پر نہیں، ہتھیاروں پر یقین رکھتے ہیں۔ جذبات نہیں جلتے، نسلیں جل رہی ہیں— اور ہم صرف تالیاں بجا رہے ہیں۔
یعقوبؑ کی تصویر صرف ایک نابینا باپ کی آنکھوں سے نہیں، بلکہ ایک زخمی معاشرے کے دل سے بنتی ہے — جہاں ہر ماں کی آنکھوں میں بیقراری، اور ہر باپ کے دل میں بے یقینی چھپی ہے۔ فرق یہ ہے کہ آج کی مائیں دُعا کرنا بھول چکی ہیں، اور باپ انتظار کو مایوسی میں بدل چکے ہیں۔ دعا اب ’’کمنٹ باکس‘‘ میں لکھی جاتی ہے، سجدے میں نہیں۔ یعقوبؑ کے آنسو ایک پیغام تھے — کہ دُکھ میں بھی اُمید زندہ رہتی ہے، مگر ہم نے دُکھ میں خدا کو بھلا دیا، اور دُنیا سے تسلیاں مانگنے لگے۔
اور آخر میں وہ منظر — یوسف ؑ تخت پرجلوہ افروز، اور وہی دشمن شرمندگی کے عالم میں سر جھکائے نادم کھڑے۔ وہ لمحۂ جب بدلے کی تلوار اُٹھائی جا سکتی تھی، مگر یوسفؑ نے معافی کی چادر اوڑھا دی۔ یہی اصل فتح تھی۔ اصل عزت۔ یہی اصل انسانیت۔ مگر معاف کرنا ہمیں آتا ہی نہیں۔ ہم صرف حساب کتاب جانتے ہیں۔ ہمیں یوسفؑ کی بادشاہی تو چاہئے، مگر یوسفؑ کی قید، یوسفؑ کے زخم، یوسفؑ کی تنہائی، اور یوسفؑ کا صبر نہیں چاہیے۔ ہم چاہتے ہیں کہ بغیر تکلیف کے تخت مل جائے، اور بغیر قربانی کے عزت۔ مگر ایسا کبھی ہوا ہے؟ نہیں ہوا، اور نہ کبھی ہوگا۔
سورہ یوسف زندگی کا وہ فلسفہ ہے جسے اگر سمجھ لیا جائے، تو کنویں سے نکل کر قصر تک کا سفر ممکن ہے۔ شرط ایک ہی ہے — سچائی، صبر، اور یقین۔ اور سب سے بڑھ کر، خود کو پہچاننا۔ دُنیا کو اپنے زخم دکھانے کے بجائے، اُن زخموں کو خدا کے سامنے رکھنا۔ یہ کہانی آج بھی ہر دل، ہر گھر، ہر رشتے، ہر آزمائش میں زندہ ہے۔ مسئلہ یہ نہیں کہ ہمارے پاس قرآن نہیں، مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے اُس کی باتوں کو سننا چھوڑ دیا ہے۔ یوسفؑ کی کہانی ہمیں بتاتی ہے کہ اگر عزت، عظمت، اور سکون درکار ہے، تو وہی راہ اپنانی ہوگی — کنویں کی، قید کی، صبر کی، اور معافی کی۔ تب ہی کچھ بدلے گا۔ تب ہی ہم ’’انسان‘‘ بن سکیں گے، ورنہ صرف مخلوق ہی رہیں گے۔

























Post your comments