class="wp-singular post-template-default single single-post postid-15054 single-format-standard wp-theme-resolution eio-default kp-single-standard elementor-default elementor-kit-7">

پاکستان کو آئندہ 7 سال میں ترقی اور ماحولیاتی چیلنجز سے نمٹنے کیلئے 348 ارب ڈالر کی ضرورت ہوگی، عالمی بینک

اسلام آباد(مہتاب حیدر) 2022ء کے سیلاب میں عالمی ڈونرز نے10.9ارب ڈالر دینے کا وعدے کیا تھا لیکن پاکستان صرف 20فیصد لینے میں کامیاب ہوسکا۔

عالمی بینک کے مطابق پاکستان کو آئندہ 7 سال میں ترقی اور ماحولیاتی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے 348 ارب ڈالرز کی ضرورت ہوگی۔ تفصیلات کے مطابق پاکستان اس وقت ایک اوراچانک آنے والے سیلاب سے نبرد آزما ہے۔

المیہ یہ ہے کہ 2022ء کے تباہ کن سیلاب کے بعد عالمی مالیاتی اداروں کی جانب سے کیے گئے وعدوں کے تحت پاکستان صرف 20 فیصد فنڈز ہی حاصل کر سکا۔ 2022ء کے سیلاب کے بعد جنیوا کانفرنس میں عالمی ڈونرز نے 10.9 ارب ڈالر امداد کا وعدہ کیا تھا مگر پاکستان اس میں سے صرف 20 فیصد فنڈز ہی عملی طور پر حاصل کر پایا۔ خیبرپختونخوا، گلگت بلتستان اور اب پنجاب میں ڈوبے ہوئے دیہات، تباہ شدہ فصلیں اور بے گھر خاندان اس حقیقت کی کڑی یاد دہانی ہیں کہ ملک کس قدر ماحولیاتی تبدیلی کے باعث آنے والی آفات کے سامنے کمزور ہے۔ سیلاب 2022ء کے بعد کیے گئے پوسٹ ڈیزاسٹر نیڈز اسیسمنٹ  کے مطابق نقصانات کا تخمینہ 14.9 ارب ڈالرز اور بحالی کی مجموعی ضروریات 16.3 ارب ڈالرز لگائی گئیں۔ 2023ء میں جنیوا ڈونرز کانفرنس میں 10.9 ارب ڈالر کے وعدے کیے گئے لیکن 3 سال گزرنے کے باوجود پیش رفت انتہائی سست رہی، درکار بحالی فنڈز میں سے 20 فیصد سے بھی کم خرچ ہو سکے۔عالمی بینک کے مطابق پاکستان کو آئندہ سات سال میں ترقی اور ماحولیاتی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے 348 ارب ڈالرز کی ضرورت ہوگی۔ رپورٹ 28 اکتوبر 2022ء کو مکمل اور جاری کی گئی تھی، جس میں 17 اقتصادی شعبوں میں نقصان اور تباہی کا تخمینہ بالترتیب 14.9 اور 15.2 ارب ڈالرز لگایا گیا تھا۔ اس رپورٹ کے مطابق پاکستان کو دوبارہ سیلاب سے پہلے کی حالت میں لانے کے لیے کم از کم 16.3 ارب ڈالر درکار ہیں۔ اسی ضرورت کی بنیاد پر4 دستاویز تیار کی گئی جو جنیوا میں عالمی ڈونرز کانفرنس میں پیش کی گئی۔ اس میں 5 سالہ (جبکہ حکومت پاکستان کے مطابق 3 سالہ) بحالی و تعمیر نو پروگرام کے لیے تقریباً 11 ارب ڈالرز کا وعدہ کیا گیا۔

اس 4رپورٹ میں 17 شعبوں کو 4 اسٹریٹجک ریکوری ابجیکٹوز  میں تقسیم کیا گیا۔-1: گورننس، ماحولیات و موسمیاتی تبدیلی، آفات سے بچاؤ کے لیے 413.5 ملین ڈالرز تھا۔-2: زراعت، روزگار و مالیات، تجارت و صنعت، سیاحت کے لیے 4.35 ارب ڈالرز تھا۔-3: سماجی شمولیت (بشمول صنفی مساوات)، ثقافت و ورثہ کے لیے 1.05 ارب ڈالرز تھا۔-4: تعلیم، صحت و غذائیت، پانی و صفائی، بلدیاتی خدمات، انفراسٹرکچر، توانائی، ٹرانسپورٹ و مواصلات، آبپاشی و آبی وسائل، ڈیجیٹل انفراسٹرکچر کے لیے 10.48 ارب ڈالرز تھا۔یہ تجزیہ ظاہر کرتا ہے کہ فنڈز کی تقسیم میں سنگین عدم توازن ہے۔

About the author /


Related Articles

Post your comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Newsletter