جب بھی یورپ، امریکہ یا کینیڈا کا نام آتا ہے، ہمارے ذہنوں میں ایک ایسی دُنیا کا نقشہ اُبھرتا ہے جہاں آسائشیں بکھری ہوتی ہیں، ہر طرف سہولتوں کی فراوانی ہے اور خوشحالی قدم قدم پر استقبال کرتی ہے۔ مغربی فلموں، ڈراموں اور سُنی سُنائی باتوں نے ان ممالک کو ایک خوابناک جنت کا درجہ دے رکھا ہے۔ ہمارے ہاں یہ عمومی تاثر پایا جاتا ہے کہ جو شخص پردیس میں رہ رہا ہے، وہ گویا شاہانہ زندگی گزار رہا ہے۔ لیکن یہ تصور، حقیقت کی تلخیوں سے کوسوں دُور ہے۔ پردیس کی زمین پر قدم رکھنے کے بعد جو کہانی شروع ہوتی ہے، وہ خواب نہیں بلکہ جاگتی آنکھوں کا وہ کربناک سلسلہ ہے جو برسوں تک جاری رہتا ہے۔
دیارِ غیر کا رُخ کرنے والے بیشتر افراد کی کامیابی کا معیار بس اِتنا ہوتا ہے کہ وہ پاکستان میں ایک چھت حاصل کر سکیں، بہن بھائیوں کی شادیاں کرا سکیں یا اپنی ذات کے لیے کوئی چھوٹا موٹا سُکھ کا سامان کر لیں۔ باقی زندگی مشقت، تنہائی، قربانیوں اور مسلسل جدوجہد میں ڈھل جاتی ہے۔ شروع کے کئی سالوں تک وہ کپڑے بھی پاکستان سے منگواتے ہیں کیونکہ پردیس میں مہنگائی کے طوفان سے ٹکرانا اُن کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ اُن کے اہلِ خانہ پاکستان میں آرام دہ گھروں میں رہتے ہیں، مگر وہ خود پردیس میں کسی بیسمنٹ کے کمرے میں چار پانچ افراد کے ساتھ گزر بسر کرتے ہیں۔ اُن کی ’’عیاشی‘‘ کبھی کبھار ایک سستا پیزا کھانا یا دوستوں کے ساتھ باربی کیو کر لینا ہوتی ہے۔ اُن کی تفریح کا دائرہ اس سے آگے نہیں بڑھتا۔
سال بھر کی تھکن سمیٹ کر وہ جب پاکستان آتے ہیں تو چند دِن کے لیے کاٹن کا سوٹ پہن کر گھومنا، کچھ پیسے خرچ کر دینا اور اپنوں کے چہروں پر مسکراہٹ دیکھ لینا ہی سب کچھ محسوس ہوتا ہے۔ وگرنہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کئی برس ایک ہی جوڑا پہن کر گزار دیئے جاتے ہیں۔ ان کی روزمرہ زندگی کا معمول حد درجہ مشینی ہوتا ہے: صبح اُٹھنا، کام پر جانا، دس بارہ گھنٹے کی محنت، پھر گھر واپسی، پاکستان کال، مختصر کھانا، اور سونا۔ اگر بیوی بچے ساتھ ہوں تو سال میں ایک بار عمرہ کروانا اُن کے لیے روحانی اور معاشی تسکین کا بڑا سبب بن جاتا ہے۔ سارا سال بچت کا مقصد صرف اتنی ہوتی ہے کہ وطن جا کر کچھ دن ’’صاحب‘‘ بن کر گزار لیے جائیں۔
یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان میں لوگ سمجھتے ہیں پردیس میں دولت بہتی ہے، لیکن وہاں کی تنخواہیں ایک بار آتی ہیں اور اس سے پہلے ہی وطن سے مطالبات کے فون آنا شروع ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگیوں میں ایسے المیے چھپے ہوتے ہیں جن پر اگر پردہ نہ پڑا ہو تو انسان سوچنے پر مجبور ہو جائے۔ کسی کی بیوی بھاگ گئی، کسی کو سسرال والوں نے ٹھگ لیا، کسی کے بچے نشہ کرنے لگے، کسی بھائی نے جمع پونجی ہڑپ لی، یا کسی کی زمین پر قبضہ ہو گیا۔ ایسے میں کبھی کبھی والدین جیسے مقدس رشتے بھی ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ دِل چاہتا ہے کہ ان لوگوں کی زندگیوں پر قلم اُٹھایا جائے، ان کی قربانیوں کو لفظوں میں ڈھالا جائے، مگر اِس خیال سے رک جانا پڑتا ہے کہ کہیں ان کہانیوں سے لوگوں کا رشتہ، اعتماد اور عقیدہ متزلزل نہ ہو جائے۔
میڈیا اور سوشل پلیٹ فارمز پر صرف ان معدودے چند خوش نصیبوں کی کہانیاں دکھائی جاتی ہیں جو ایک عام زندگی سے نکل کر کامیابی کی منزلیں طے کر گئے۔ مگر باقی نوے فیصد پردیسیوں کی زندگی، ان کی محنت، ان کے زخم، کوئی نہیں دیکھتا، نہ کوئی لکھتا ہے، نہ کوئی جاننا چاہتا ہے۔ ان کی موت پر محض یہ خبر رہ جاتی ہے کہ ’’اچھا بھلا تھا، اچانک ہارٹ اٹیک ہوا اور جوانی میں چل بسا۔‘‘ مگر کوئی یہ نہیں جانتا کہ وہ ’’اچھا بھلا‘‘ کب تھا؟ اور کیا کبھی تھا بھی؟
پردیس میں بسنے والے ہمارے ہم وطن، محض تارکینِ وطن نہیں بلکہ زندہ جاوید قربانیوں کے استعارے ہیں۔ وہ چمکتی سڑکوں، بلند و بالا عمارتوں اور ترقی یافتہ دُنیا کے بیچ اپنی شناخت، سکون اور رشتوں کی گرمی تلاش کرتے رہتے ہیں۔ ان کے خواب وقت سے پہلے بوڑھے ہو جاتے ہیں اور جوانی تھکن کی چادر اوڑھ کر خاموشی سے رُخصت ہو جاتی ہے۔ ان کی زندگی ایک ایسا آئینہ ہے جس میں عکس تو روشن دکھائی دیتا ہے، مگر پیچھے کی دراڑیں کسی کو نظر نہیں آتیں۔ اور یہی ہے ان کی اصل کہانی — سنجیدگی سے لکھی جائے تو دل دہلا دیتی ہے، مگر افسوس، اکثر صرف نظر انداز ہو جاتی ہے۔
Post your comments