nazarhaffi@gmail.com
سلیم صافی صاحب کا کالم بعنوان “ایران سے کس طرح بات کی جائے؟” پڑھنے کی توفیق ملی۔انہوں نے اپنے کالم کا آغاز کچھ ایسے کیا ” 2007 میں جب پہلی مرتبہ مجھے اطلاعات ملنے لگیں۔۔۔چند سطور کے بعد انہوں نے اپنے مدعاکے حق میں دلیل یہ لائی کہ دو برطانوی انویسٹی گیٹو صحافیوں کیتھی سکاٹ کلارک اور ایڈرین لیوی نے دو سال قبل دی ایکسائل (The Exile)کے نام سے ایک کتاب لکھی جو۔۔۔۔پھر اس کتاب میں جو لکھا تھا وہی لکھنا شروع کیا۔۔۔ ”
کالم کی بعد والی سطور میں انہوں نے لکھا:
“چالاکیوں سے ایران نے ایک طرف لبنان میں شیعہ حزب اللہ کو اپنا پراکسی بنا رکھا ہے تو دوسری طرف یمن کے حوثیوں کو اور اب تو سنی حماس کو بھی اپنی پراکسی میں بدل دیا۔ حماس سے اسرائیل کے اندر کارروائی کرواکے ایران نے ایک تیر سے کئی شکار کئے۔”اس کے بعد اُن کا قابلِ توجہ پیراگراف یہ ہے کہ ” اب سفارتی سطح پر بھی پاکستان کو بہادرانہ اور جارحانہ رویہ اپنا کر اپنا حساب پاک کر لینا چاہئے۔”انہوں نے اپنے کالم کا ہٹ سنٹینس کمال کا لکھا اور اس میں اپنی ساری محنت کا نتیجہ اور اپنا پیغام اس ایک جملے میں دے دیا کہ “ایران کو اسی طرح ڈیل کیا جائے جس طرح ہندوستان کو کیا جارہا ہے۔”
اب بات کرتے ہیں کالم کے پہلے پیراگراف کی۔پہلا گراف خود یہ بتا رہا ہے کہ محترم سلیم صافی کی اطلاعات یک طرفہ بھی ہیں اور کچھ خاص سورسز کی طرف سے فراہم شدہ بھی ہیں۔انہوں نے اُن اطلاعات کی چھان بین کیلئے دوسری طرف رجوع نہیں کیا۔یاد رہے کہ مسلمانوں کے درمیان نفرتیں پھیلانے اور مسلمان ممالک کے مابین دوریاں پیدا کرنے کیلئے کتابیں لکھنے والے بھی بہت کچھ لکھتے ہیں اورسورسز بھی بہت کچھ بتاتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب یہ نہیں ہوتا کہ جانچے پرکھے اور تصدیق کئے بغیر ملک و قوم کی سلامتی اور منافع کے قطعِ نظر موصولہ اطلاعات پر یقین کر کے قلم فرسائی کر دی جائے۔ یہ کسی ایک صحافی کی مشکل نہیں بلکہ ہمارے اکثر لکھاریوں کو چینل کے بجائے میڈیا بدلنے کی ضرورت ہے۔
دوسرے منتخب شدہ پیراگراف میں انہوں نے لبنان کی حزب اللہ، یمن کے حوثیوں اور فلسطین کی حماس کو ایران کی پراکسیز کہا ہے۔ ہم پراکسی کی تعریف کی قیل و قال میں اصل مدعا کو دفن نہیں کرنا چاہتے۔اگر حزب اللہ والے لبنان کے بیٹے، انصار اللہ والے حوثی یمن کے فرزند اور حماس والے فلسطین کے غیرت مند بیٹے نہ ہوتے تو پھر تو شاید کوئی اعتراض بنتا کہ ایران وہاں پر باہر کے لوگوں کو لے جا کر بسا رہا ہے اور مضبوط کر رہا ہے۔
ساری دنیا یہ جانتی ہے کہ ایران نے جارح قوتوں کے خلاف حزب اللہ کو لبنان میں، حوثیوں کو یمن میں اور حماس کو فلسطین میں مضبوط بھی کیا ہے اور اس کے بدلے میں شدید ترین اقتصادی و سیاسی پابندیوں کا شکنجہ بھی مسلسل برداشت کر رہا ہے۔
جارح اور غاصب طاقتوں سے آزادی حزب اللہ، حوثیوں اور فلسطینیوں کا انسانی اور اخلاقی حق ہے، یہ دنیا کے ہر باشعور انسان کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان مظلوموں کی مدد کرے۔ یہ تاثر دینا کہ ایران اُن کی مدد کرکے غلط کر رہا ہے یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے کوئی یہ کہے کہ پاکستان نے کشمیریوں کو اپنی پراکسی بنایا ہوا ہے۔
بھائی! کشمیری خود کشمیر کے بیٹے ہیں، کسی بھی جارح طاقت کے خلاف جہاد کرنا اُن کا فطری اور انسانی حق ہے۔ اگر پاکستان کشمیریوں کی مدد کرتا ہے تو یہ قابلِ تعریف ہے نہ کہ اسے پاکستان کی چالاکی یا سازش کہا جائے۔
محترم سلیم صافی صاحب بخوبی جانتے ہی ہونگے کہ قیامِ پاکستان کے بعد کشمیری و پاکستانی قیادت کے درمیان بھی متعدد اتار چڑھاو آئےلیکن اگر کوئی اس اتار چڑھاو سے سوئے استفادے کی کوشش کرے اور کشمیریوں کو یہ کہے کہ پاکستان کو بھی اُسی نگاہ سے دیکھیں جیسے ہندوستان کو دیکھتے ہیں تو یہ معاملہ فہمی تو نہ ہوئی۔
اسی پیراگراف میں انہوں نے لکھا ہے کہ ” حماس سے اسرائیل کے اندر کارروائی کرواکے ایران نے ایک تیر سے کئی شکار کئے۔” یہ جملہ محترم سلیم صافی صاحب کی معلومات، سورسز، ان کی تحقیقات اور مطالعات کو زیرِ سوال لے جاتاہے۔ یہ وہی بات ہے کہ ۶۵ کی جنگ میں ہندوستانی طیارے تہران سے تیل بھر کر اسلام آباد پر بمباری کرتے تھے، یا اکہتر کی جنگ میں بنگلہ دیشیوں کو آیت اللہ خمینی نے انقلاب برپا کرنے کیلئے فتویٰ دیا تھا۔اس حوالے سے ہر عقل مند آدمی یہی کہے گا کہ لکھاریوں کی معلومات اگر بہت زیادہ نہ ہوں تو پھر بھی جتنی ہوں اُتنی مستند تو ہوں۔
مثلاً طوفان الاقصی کیا ہے؟یہ کس کا منصوبہ تھا؟کس نے اس کی پلاننگ کی؟ایران کو اس کی خبر کب ہوئی؟حوثیوں کو اس کا کب پتہ چلا؟ اور حزب اللہ کو اس کی کب اطلاع ہوئی؟ یہ موٹی موٹی معلومات تو ہر لکھاری کے پاس درست ہونی چاہیے۔ درست معلومات کیلئے ہمارے صحافی بھائیوں کیلئے پھر وہی مشورہ ہے کہ چینل کے بجائے میڈیا بدلیں۔
خیر ایران و پاکستان کے درمیان جو ہوا سو ہوا، اُسے متعلقہ اداروں نے بروقت اپنے اپنے طور پر سلجھالیا۔ دوطرفہ مصلحت، دوطرفہ خیرخواہی اور دوطرفہ دانشمندی کا تقاضا بھی تھا۔یہ تاریخ ایران و پاکستان کا اس نوعیّت کا پہلا ناخوشگوار اتفاق ہے جسے حُسنِ اتفاق اور خوش اسلوبی سے نمٹا دیا گیا۔ ہمیں قوّی امید یہی رکھنی چاہیے اور اپنی زبان و قلم سے کوشش بھی یہی کرنی چاہیے کہ پھر یہ سانحہ کبھی تکرار نہ ہو۔
بظاہر محترم سلیم صافی صاحب کے کالم سے یوں لگا کہ انہیں یہ خیر سگالی اور برادرانہ جذبہ قطعاً نہیں بہایا۔ ﴿بظاہر یوں لگا ممکن ہے درحقیقت ایسا نہ ہو﴾چنانچہ انہوں نے اگلے پیراگراف میں اپنی سب سے جاندار سطر کچھ یوں لکھی کہ “سفارتی سطح پر بھی پاکستان کو بہادرانہ اور جارحانہ رویہ اپنا کر اپنا حساب پاک کر لینا چاہئے”۔
یہ سطر بتا رہی ہے کہ وہ اس معاملے کو جیسے حل ہو رہا ہے ویسے نہیں دیکھنا چاہتے بلکہ وہ اس سے بڑھ کر کچھ کروانے کے درپے ہیں، ان کے ساب سے آخری جملے کا پیغام یہ ہے کہ وہ ایک ایسا پاکستان دیکھنا چاہتے ہیں کہ جو ایران کو اُسی طرح ڈیل کرے جس طرح ہندوستان کو کرتا ہے۔
اس سے لگتا ہے کہ اُن کے سورسز اور انہیں گائیڈ لائن دینے والوں نے اُنہیں یہ سمجھایا ہے کہ پاکستان اور ایران کے درمیان اُتنی ہی دشمنی ہونی چاہیے جتنی پاکستان اور ہندوستان کے درمیان ہے۔اندازہ لگائیں کہ اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ سلیم صافی صاحب کے قوی سورسز اور انہیں گائیڈ لائن فراہم کرنے والوں کو ملکی سلامتی کے تقاضوں کا مطلقاً درست احساس نہیں۔
انہوں نے اپنے کالم کا عنوان مقرر کیا تھا کہ “ایران سے کس طرح بات کی جائے؟” تاہم سارے کالم میں انہوں نے ایران سے کرنے والی کوئی بات نہیں کی۔ کالم پڑھنے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ہمارے نزدیک سلیم صافی صاحب ہمارے بہت محترم پاکستانی قلمکار ہیں۔ ان کے ساتھ صرف اتنی سی بات کرنے کی ضرروت ہے کہ ایک تو وہ اپنا میڈیا تبدیل کریں اور دوسرے یہ کہ غلط فہمی، غلطی اور کوتاہی دو بھائیوں کے درمیان بھی ہو جاتی ہے، اگر وہ دونوں صلح و صفائی پر آمادہ ہو جائیں تو اُن کے درمیان دشمنی اور کینے کی فضا کو باقی رکھنے کی کوشش کرنا یا ان میں سے کسی ایک کو بھی جارحانہ رویّہ اپنانے پر ابھارنا یہ کسی بھی صورت میں مستحسن نہیں۔
Post your comments