class="wp-singular post-template-default single single-post postid-13930 single-format-standard wp-theme-resolution eio-default kp-single-standard elementor-default elementor-kit-7">

ٹرمپ اور امن کا تمغہ‘‘ تحریر: نجیم شاہ

جب سے دُنیا نے ڈونلڈ ٹرمپ کو نوبل امن ایوارڈ کے لیے نامزد کرنے کی خبریں سُنی ہیں، تب سے بین الاقوامی سطح پر ایک عجیب و غریب کیفیت طاری ہے۔ یہ ایسا لمحہ ہے جب عقلِ سلیم رکھنے والا ہر شخص حیرت اور تجسس کے ملے جلے جذبات کا شکار ہو جاتا ہے۔ ایک طرف وزیراعظم پاکستان، جناب شہباز شریف صاحب، جو اپنی ’’پنجاب اسپیڈ‘‘ کے لیے مشہور ہیں، اِس معاملے میں اِتنی تیزی سے آگے بڑھے کہ اقوامِ متحدہ کے کسی رسمی اقدام سے پہلے ہی ٹرمپ کے سر پر ’’امن کا تاج‘‘ سجا دیا۔ اور ابھی ہم اس غیر متوقع پیش رفت پر آنکھیں مل ہی رہے تھے کہ نیتن یاہو کی پرزور تائید سنائی دی:’’ہاں، بالکل! ٹرمپ ہی امن کا سچا علمبردار ہے۔‘‘ یہ وہ لمحۂ تھا جب اجتماعی فہم پر سوالیہ نشان لگ گیا اور صورتحال کی ستم ظریفی اپنے عروج پر پہنچ گئی۔

ذرا تصور کریں، وہی ٹرمپ جو ٹوئٹر پر صبح ناشتے سے پہلے کم از کم تین ملکوں کو دھمکیاں دے کر دن کا آغاز کرتا تھا، وہی ٹرمپ جس نے امریکہ میں مسلمانوں کے داخلے پر پابندی عائد کی، جس نے ایران سے جوہری معاہدہ پھاڑ کر پھینک دیا جیسے وہ کوئی بے معنی کاغذ کا ٹکڑا ہو؟ جس نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کر کے مشرق وسطیٰ میں آگ لگا دی، اور جس کے دور میں مہاجرین کے بچوں کو پنجروں میں بند کیا گیا! آج وہی شخص ’’امن کا سفیر‘‘ بن گیا ہے؟ سبحان اللہ! یہ تو ایسے ہی ہے جیسے کسی قصائی کو ’’ویجیٹیرین آف دی ایئر‘‘ قرار دے دیا جائے، یا کسی بلی کو دودھ کی فیکٹری کا ’’ڈائریکٹر‘‘ بنا دیا جائے۔ ایسا لگتا ہے کہ امن کی عالمی تعریف میں خاموشی سے کوئی ایسی ترمیم کر دی گئی ہے جس سے دُنیا کو آگاہ نہیں کیا گیا۔ اگر ٹرمپ واقعی امن کا پیامبر ہے، تو پھر تاریخ کے ظالم حکمرانوں، جیسے ہٹلر کو اقوام متحدہ کا خیرسگالی سفیر اور چنگیز خان کو بچوں کے حقوق کا محافظ مقرر کرنے میں بھی کوئی قباحت نہیں ہونی چاہیے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے وزیراعظم صاحب کو آخر یہ خیال کیسے آیا؟ کیا اُنہیں کہیں سے کوئی خفیہ ’’فوٹو شاپڈ فائل‘‘ موصول ہوئی، یا پھر کسی نے ٹرمپ کے سر پر ’’جناح کیپ‘‘ پہنا کر ان کا دل موہ لیا؟ بظاہر لگتا ہے کہ وزیراعظم ہاؤس میں بھی وائی فائی کے سگنلز کمزور پڑ گئے ہیں، یا شاید کسی پرانے ڈونلڈ ٹرمپ کی تصویر کو ایک نئے فریم میں سجا کر عوام کی سادگی کا امتحان لیا جا رہا ہے۔ نیتن یاہو کی تو خیر ٹرمپ سے پرانی دوستی ہے۔ ٹرمپ نے اُنہیں وہ سب کچھ دیا جو کوئی دوسرا امریکی صدر نہ دے سکا! — یروشلم کا تنازعہ، گولان کی پہاڑیاں، اور فلسطینیوں کے معاملے پر مکمل خاموشی کا لائسنس۔ اُن کے لیے تو ٹرمپ نہ صرف امن کے علمبردار بلکہ ’’سیاسی نفع بخش اثاثہ‘‘ ثابت ہوئے ہیں۔

مگر ہمارے لیے ٹرمپ نے کون سا امن لایا؟ زیادہ سے زیادہ یہی ہوا کہ اُس نے ہمیں ایک بار فون کیا اور ہم خوشی سے دھمال ڈالنے لگے کہ ’’امریکہ نے ہمیں کال کی ہے!‘‘ اگر یہی معیار ہے تو پھر میرے موبائل پر آیا ہوا ’’ایزی لوڈ والا میسج‘‘ بھی نوبل انعام کا حق دار ہے۔ ایسے میں دل کرتا ہے کہ آنکھیں بند کر کے خود کو کسی اور سیارے پر تصور کر لیا جائے۔ ایک ایسا سیارہ جہاں تاریخ کو اُلٹا لکھا جاتا ہے، جہاں جنگی جنون امن کہلاتا ہے، اور جہاں ’’فائرنگ پالیسی‘‘ کو ’’سفارتی حکمت عملی‘‘ مانا جاتا ہے۔ شاید ایسے ہی کسی سیارے پر یہ فیصلہ کیا گیا ہو گا کہ ٹرمپ امن کے حق دار ہیں۔

اگر امن کا پیمانہ واقعی یہی ہے، تو پھر ہمیں عالمی ایوارڈز کے پورے نظام کو دوبارہ ترتیب دینا پڑے گا۔ مثلاً: نریندر مودی کو ’’اقلیتوں کا ہمدرد‘‘ قرار دیا جائے، صدام حسین کو ’’جمہوریت کا نقیب‘‘ مانا جائے، اور گولڈن گلوب ایوارڈ اگلی بار شمالی کوریا کے سپریم لیڈر کو پیش کر دیا جائے۔ ایسا لگتا ہے جیسے پوری دنیا نے طنز کو سنجیدگی اور سنجیدگی کو طنز سمجھنے کی قسم کھا لی ہے۔ اگر واقعی ڈونلڈ ٹرمپ کو امن کا ایوارڈ دینا ہے، تو پھر دُنیا بھر کے جگت بازوں، مزاح نگاروں اور لطیفہ فروشوں کو اپنی ملازمتیں چھوڑ کر ریٹائر ہو جانا چاہیے، کیونکہ جب حقیقت ہی طنز بن جائے، تو فکاہیہ ادب کی کیا ضرورت؟ آپ کو لگتا ہے یہ سبق مذاق ہے؟ تو جناب! یہ مذاق نہیں بلکہ ’’سفارتی حقیقت کا کڑوا چورن‘‘ ہے جو اب ہر ملک کے منہ میں زبردستی ڈالا جا رہا ہے۔

اگر یہ ایوارڈ واقعی ٹرمپ کو دے دیا گیا تو تقریب کی منظرکشی کچھ یوں ہو گی کہ مہمانِ خصوصی نیتن یاہو ہوں گے، میزبان شہباز شریف صاحب، اور پسِ پردہ راگنی بجا رہے ہوں گے مودی جی، جو کہیں کونے میں بیٹھے اپنے لیے بھی کسی امن ایوارڈ کی تیاری کر رہے ہوں گے۔ قارئین کرام! اگر آپ کو لگتا ہے کہ یہ سب لطیفہ ہے تو آپ بالکل ٹھیک سمجھ رہے ہیں! کیونکہ موجودہ عالمی سیاست اب محض طنز نہیں رہی، خود ایک لطیفہ بن چکی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ پہلے ہم ان لطیفوں پر ہنستے تھے، اب ہم حیرت اور مایوسی سے خاموش ہو جاتے ہیں۔

آخر میں یہ عرض ہے کہ جب امن کا عالمی ایوارڈ اِس قدر سستا ہو جائے اور اپنی حقیقی قدر و منزلت کھو دے، تو ہمیں اپنی امیدوں کا مرکز اُن حقیقی امن پسند افراد اور اداروں کی جانب موڑ دینا چاہیے جو بے لوث ہو کر انسانیت کی فلاح اور استحکام کے لیے کوشاں ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے چھوٹے سے عمل سے بھی دُنیا میں مثبت تبدیلی لاتے ہیں۔ وقت آ گیا ہے کہ ہم ان کی کوششوں کو سراہیں اور امن کے حقیقی مفہوم کو از سر نو زندہ کریں، اِس سے پہلے کہ یہ تصور مکمل طور پر مذاق بن کر رہ جائے اور ہم اپنی عقل و فہم پر ہی سوال اُٹھانے لگیں۔

About the author /


Related Articles

Post your comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Newsletter