پاکستان ایک عظیم ملک ہے،اِتنا عظیم کہ یہاں خواب تو بہت دیکھے جاتے ہیں، لیکن تعبیر کی ذمہ داری ہمیشہ اگلی حکومت پر ڈال دی جاتی ہے۔ یہاں ہر سیاسی جماعت ملکی ترقی کا دعویٰ کرتی ہے، بشرطیکہ اقتدار میں آنے دیا جائے، اور عوام بھی ہر پانچ سال بعد ’’نئے پاکستان‘‘ کے پرانے وعدوں پر ایسا ایمان لاتے ہیں کہ اگر یہی ایمان عبادات میں ہوتا تو شاید بخشش کی قطار میں سب سے آگے کھڑے ہوتے۔
ہمارے ہاں سیاستدان وہ مخلوق ہیں جو اپوزیشن میں ہوتے ہوئے دُودھ سے دھلے اور حکومت میں آتے ہی دودھ کی ساری بھینسیں بیچ کھاتے ہیں۔ ملک کی ترقی کے جتنے خواب ہمارے قائدین نے عوام کو دکھائے ہیں، اتنے خواب تو انسان کو بخار میں بھی نہیں آتے۔ ہر سیاسی جماعت کے پاس ترقی کا مکمل پلان ہوتا ہے، لیکن افسوس وہ پلان صرف جلسوں کی تقریروں میں دکھایا جاتا ہے، عملی طور پر اتنا ہی غائب ہوتا ہے جتنا بجٹ میں عوامی فلاح۔
سیاسی منشور میں تعلیم، صحت، روزگار، انفراسٹرکچر، ٹیکنالوجی، سب کچھ شامل ہوتا ہے۔ بس جب اقتدار ملتا ہے تو پہلا کام مخالفین کے خلاف کیسز بنانا، دوسرا کام ٹاک شوز میں چیخنا، اور تیسرا کام ترقیاتی بجٹ کو ایسی جگہ ’’منتقل‘‘ کرنا ہوتا ہے جس کا عوام کو علم نہ ہو، اور افسران کو فائدہ ہو۔
ہمارے سیاستدان اتنے وژنری ہیں کہ 2050 ء تک کے خواب دکھا دیتے ہیں، لیکن اگلے مہینے کی مہنگائی پر اُن کی یادداشت اتنی کمزور ہو جاتی ہے کہ لگتا ہے ابھی ابھی ’’سیاسی الزائمر‘‘ ہو گیا ہے۔ یہ لوگ ہر بار کہتے ہیں کہ ’’ہم نے پچھلی حکومت کی لوٹ مار ٹھیک کرنی ہے‘‘، اور پھر اگلی حکومت آ کر کہتی ہے ’’ہم پچھلی حکومت کی تباہی ٹھیک کر رہے ہیں‘‘۔ یعنی ملک وہ مریض ہے جو ہر پانچ سال بعد نئے حکیم کے ہاتھوں تجربہ گاہ بن جاتا ہے۔
سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت کا حال بھی ایسا ہے جیسے مرغی کے گھر میں انڈہ خود بخود صدر منتخب ہو جائے۔ لیڈرشپ وہی جو بابا جان کے بعد بیٹے، پھر بیٹے کے بعد داماد، اور پھر داماد کے بعد بھانجے تک محدود ہو۔ نوجوان قیادت کی تلاش ایسے ہی ہے جیسے کسی پرانی فائل میں اچھی خبر تلاش کرنا۔
ہمارے ہاں ترقی کا مطلب ہے ’’میگا پراجیکٹ‘‘۔ اور میگا پراجیکٹ کا مطلب ہے’’ زیادہ کمیشن، زیادہ تصویریں، زیادہ فیتے، اور زیادہ اشتہار‘‘۔ عوام کو سڑک چاہیے یا روٹی؟ سیاستدان کے لیے سوال نہیں، تصویر چاہیے۔
اب رہی بات عوام کی، تو وہ ہر بار ووٹ دے کر خود کو جمہوریت کا سپاہی سمجھتے ہیں، اور اگلے دن آٹے کی قطار میں لگ کر سمجھ جاتے ہیں کہ اصل جنگ تو پیٹ کی ہے۔ یہاں عوام کا مسئلہ روزی ہے، مگر سیاستدانوں کا مسئلہ روزنامہ ہے—کون سا چینل، کون سا کالم، کون سا بیان؟
ہر سیاستدان دعویٰ کرتا ہے کہ ’’ہم اس ملک کو ایشین ٹائیگر بنائیں گے‘‘۔ اور جب حکومت جاتی ہے تو وہی ٹائیگر ایسی حالت میں ہوتا ہے جیسے جنگل میں بھٹک گیا ہو۔ ہمارا مسئلہ یہ نہیں کہ ترقی نہیں ہو رہی، مسئلہ یہ ہے کہ ترقی صرف جلسوں میں ہو رہی ہے، اور معیشت صرف وعدوں میں۔
کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ اگر پاکستان واقعی ترقی کر جائے تو ہمارے سیاستدان کیا کرینگے؟ جلسوں میں کیا کہیں گے؟ “ہم نے مسئلے حل کر دیئے ہیں، اب صرف آرام کرینگے‘‘؟ یہ بیانیہ تو عوام کے لیے زیادہ خطرناک ہو گا۔
اگر سیاسی جماعتیں واقعی ملک کی ترقی چاہتی ہیں تو پہلے ترقی کا مطلب گوگل کریں، پھر قومی مفاد کا مطلب لغت میں دیکھیں، اور پھر کسی دیانت دار بندے کو مشورے کے لیے رکھ لیں۔ اور عوام سے درخواست ہے کہ ووٹ دیتے وقت وعدے نہیں، ماضی یاد رکھیں، ورنہ خواب تو بہت ہیں، بس تعبیر ہمیشہ لندن، دبئی یا نیویارک نکلتی ہے۔
Post your comments